Topics
’’اے
رسولﷺ! انسان کو حکم دے کہ وہ زمین میں چل پھر کر دیکھیں کہ خدا نے کس طرح آفرینش
کی ابتداء کی۔‘‘ (عنکبوت)
’’کیا
یہ لوگ آسمان و زمین کی تخلیق پر غور نہیں کرتے؟ معلوم ہوتا ہے کہ ان کی موت قریب
آ گئی ہے۔‘‘ (اعراف)
’’غور
کرو کہ پہاڑوں میں سفید، سرخ اور سیاہ رنگ پتھروں کی تہیں موجود ہیں۔ نیز انسانوں،
چوپایوں اور مویشیوں کے مختلف رنگوں کا مطالعہ کرو۔ اور یاد رکھو کہ اللہ سے اس کے
بندوں میں سے صرف عالم ہی خشیت رکھتے ہیں۔‘‘ (فاطر)
ان
آیات مبارکہ سے یہ تاثر قائم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کتاب الٰہی اور کائنات کی تخلیق
پر تفکر کی دعوت دیتے ہیں۔ خالق کائنات کی یہ دلی خواہش ہے کہ اس کے بندے تفکر کو اپنا
شعار بنا لیں تا کہ یہ حقیقت آشکارا ہو جائے کہ
’’ہم
نے آدم کو علم الاسماء سکھا دیا۔ پھر فرشتوں سے کہا تم بیان کرو اس علم کو اگر تم
سچے ہو۔‘‘ (سورہ بقرہ)
جو
قومیں اللہ کی آیات اور مطالعہ کائنات میں غور و فکر کرتی ہیں، کائناتی حقائق ان کے
سامنے آ جاتے ہیں۔ ایسی قومیں جو کائناتی حقیقتوں کو تلاش کر کے اپنا کردار ادا کرتی
ہیں معزز اور محترم بنا دی جاتی ہیں۔ اس کے برعکس جو قوم مردہ دل ہو کر اپنی سوچ اور
اپنی فہم کا محور ریاکاری کو بنا لیتی ہے اس کے اوپر ذلت اور رسوائی کا عذاب نازل کر
دیا جاتا ہے۔
اللہ
تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’تمام
کائنات اور زمین کے خزانے تمہارے لئے پیدا کئے گئے ہیں۔‘‘ (سورہ بقرہ)
’’انسان
سے آنکھ، کان اور دل کے متعلق بازپُرس ہو گی۔‘‘ (بنی اسرائیل)
آج
کے ترقی یافتہ دور میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ وہی قوم سربلند اور معزز و محترم ہے جو صحیح
معنوں میں آنکھ، کان اور دل کا استعمال کر رہی ہے۔ یہ ساری سائنسی ترقیاں اسی لئے
وجود میں آتی ہیں کہ ایک قوم کے افراد نے اللہ کی بخشی ہوئی اس نعمت کو عقل و شعور
اور تفکر کے ساتھ استعمال کیا ہے۔
’’ہم
نے فولاد پیدا کیا جو ایک پُر ہیبت اورنہایت مفید دھات ہے۔‘‘ (حدید)
سائنس
کی کون سی ترقی ہے جس میں کسی نہ کسی طرح دھات کا عمل دخل نہ ہو۔ ہوائی جہاز، پانی
کے جہاز، ریل کی پٹری، موٹر کاریں، دیوہیکل مشینیں، چھوٹی بڑی فیکٹریاں، آگ اُگلنے
والے اسلحہ جات……کیا ہمارے لئے درس عبرت نہیں ہیں؟……قرآن ہمارا ہے۔ اللہ ہمارا ہے۔
آیت ہمارے قرآن کی ہے……لیکن چونکہ ہم تفکر سے عاری ہیں اور دوسری قومیں تفکر سے معمور
ہیں اس لئے ہم محروم ہیں اور آسودہ ہیں……ہم ذلیل و خوار ہیں، وہ باعزت ہیں۔ ہم بھکاری
ہیں اور وہ ہمیں خیرات دینے والے ہیں……کہا جاتا ہے کہ ہم مسلمان جنتی ہیں اور اغیار
دوزخی ہیں……عقل گنگ ہے کہ یہ کیسی منطق ہے……دوزخی لوگوں کی خیرات پر جنتی لوگوں کا
گزر بسر ہے۔ جنتی لوگ دوزخی لوگوں کی اُترن پہنتے ہیں۔ جنتی لوگ ہر ہر معاملہ میں دوزخیوں
کے دست نگر ہیں۔
کائناتی
تفکر نہ ہونے سے ہم ایک ایسی قوم بن گئے ہیں جس کا کوئی مقام زمین پر ہے اور نہ آسمانوں
میں اس کی کوئی شنوائی ہے……تفکر اور تدبر کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ
قرآن میں وضو، نماز، صوم و صلوٰۃ، حج، طلاق، قرض، آداب معاشرت وغیرہ پر ڈیڑھ سو آیات
ہیں اور کائنات پر تفکر کرنے سے متعلق آیات کی تعداد سات سو چھپن ہے۔
ارض
و سما کی تخلیق اور اختلاف لیل و نہار میں عقل مندوں کے لئے آیات موجود ہیں۔ (آل
عمران)
’’ارض و سما کی تخلیق، اختلاف لیل
و نہار، سمندروں میں تیرنے والی مفید کشتیوں اور اس گھٹا میں جو زمین و آسمان کے درمیان
خیمہ آرا ہے۔ ارباب عقل و خرد کے لئے نشانیاں موجود ہیں۔‘‘ (البقرہ)
خواجہ شمس الدین عظیمی
زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ
ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور
مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی
اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان
کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو
اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں
تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ
باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب
سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور
لازوال عیش ہے۔