Topics
مسکراتے ہوئے، نرمی کے ساتھ، میٹھے لہجے اور
درمیانی آواز میں بات کرنے والے لوگوں کو اللہ کی مخلوق عزیز رکھتی ہے۔ چیخ کر بولنے
سے اعصاب میں کھچائو Tensionپیدا ہوتا ہے اور اعصابی کھچائو سے بالآخر آدمی دماغی امراض میں مبتلا ہو
جاتا ہے۔ مخاطب یہ سمجھتا ہے کہ میرے اوپر رعب ڈالا جا رہا ہے اور وہ اس طرز کلام سے
بد دل اور دور ہو جاتا ہے۔ اس کے اندر خلوص اور محبت کے جذبات سرد پڑ جاتے ہیں۔
شیریں
مقال آدمی خود بھی اپنی آواز سے لطف اندوز اور سرشار ہوتا ہے اور دوسرے بھی مسرور
و شاداں ہوتے ہیں۔ اچھی، میٹھی اور مسحور کن آواز سے اللہ میاں بھی خوش ہوتے ہیں۔
اللہ
تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’سب
سے زیادہ کریہہ اور ناگوار آواز گدھے کی آواز ہے۔‘‘
بُری
باتوں اور گالم گلوچ سے زبان گندی نہ کیجئے۔ چغلی نہ کھایئے۔ چغلی کرنا ایسا ہے جیسے
کوئی بھائی اپنے بھائی کا گوشت کھاتا ہو۔ دوسروں کی نقلیں نہ اتاریئے۔ اس عمل سے دماغ
میں کثافت اور تاریکی پیدا ہوتی ہے۔ شکایتیں نہ کیجئے کہ شکایت محبت کی قینچی ہے۔ کسی
کی ہنسی نہ اڑایئے کہ اس عمل سے آدمی احساس برتری میں مبتلا ہو جاتا ہے اور احساس
برتری آدمی کے لئے ایسی ہلاکت ہے جس ہلاکت میں ابلیس مبتلا ہے۔ اپنی بڑائی نہ جتایئے۔
اس عمل سے اچھے لوگ آپ سے دور ہو جائیں گے۔ خوشامد اور چاپلوسی کرنے والے منافق آپ
کا گھیرائو کر لیں گے اور ایک روز آپ عرش سے فرش پر گر جائیں گے۔ فقرے نہ کسیئے، کسی
پر طنز نہ کیجئے۔ بات بات پر قسم نہ کھایئے۔ یہ عمل آپ کے کردار کو گہنا دے گا اور
آپ لوگوں کی محبت سے محروم ہو جائیں گے۔
خوشی
انسان کے لئے ایک طبعی تقاضہ اور فطری ضرورت ہے۔ اسلام یہ نہیں چاہتا کہ مسلمان مصنوعی
وقار، غیر فطری سنجیدگی، مردہ دلی اور افسردگی سے قوم کے کردار کی کشش کو ختم کر دیں۔
اسلام چاہتا ہے کہ مسلمان بلند حوصلوں، نت نئے ولولوں اور نئی نئی امنگوں کے ساتھ تازہ
دم ہو کر اپنا وقار بلند رکھیں۔
قوم
کے کسی فرد کو علم و فضل میں کمال حاصل ہو، کوئی عزیز دوست یا رشتہ دار دور دراز کے
سفر سے واپس آئے۔ کوئی معزز مہمان آپ کے گھر میں رونق افروز ہو۔ شادی بیاہ یا بچے
کی ولادت کی تقریب ہو۔ کسی عزیز کو اللہ تعالیٰ صحت عطا کریں۔ کوئی خبر ایسی ہو جس
میں اسلام کی فتح و نصرت کی خوشخبری ہو، کوئی تہوار ہو تو ایسے تمام مواقع پر بھرپور
خوشی کا اظہار کرنا ایک مسلمان پر فرض ہے۔ اسلام نہ صرف خوش رہنے اور خوشی منانے کی
اجازت دیتا ہے بلکہ اس کو عین دینداری قرار دیتا ہے۔
حضرت
عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ عید کا دن تھا۔ کچھ کنیزیں بیٹھی اشعار گا رہی تھیں کہ
اسی دوران حضرت ابو بکرؓ تشریف لے آئے۔
بولے۔
’’نبی کے گھر میں یہ گانا بجانا کیسا؟‘‘
نبی
برحق صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
’’ابوبکر،
رہنے دو۔ ہر قوم کے لئے تہوار کا ایک دن ہوتا ہے اور آج ہماری عید کا دن ہے۔‘‘
ایک
مرتبہ تہوار کے دن کچھ حبشی بازیگر کرتب دکھا رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے
یہ کرتب خود بھی دیکھے اور حضرت عائشہؓ کو بھی دکھائے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے
ان بازیگروں کو شاباش بھی دی۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ
ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور
مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی
اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان
کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو
اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں
تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ
باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب
سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور
لازوال عیش ہے۔