Topics
’’اے کپڑے میں لپٹنے والے رات کو قیام
کیا کرو مگر تھوڑی سی رات۔ نصف رات یا اس سے کچھ کم۔ یا کچھ زیادہ اور قرآن کو ٹھہر
ٹھہر کر پڑھا کرو ‘‘۔ سورۂ مزمل ۔ 1تا 4)
’’پاک ہے وہ ذات جو لے گیا اپنے بندے
کو راتوں رات۔ مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ تک جس کے گردا گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں
تا کہ ہم اسے اپنی نشانیاں دکھائیں‘‘۔ (سورۂ
بنی اسرائیل۔ 1)
اور نازل کیا ہم نے اس کو لیلۃ القدر
میں۔ تمہیں کیا معلوم کہ لیلۃ القدر کیا ہے؟ بہتر ہے ہزار مہینوں سے۔ اس رات میں اُترتے
ہیں فرشتے اور روح اپنے رب کے حکم سے اور یہ رات امان اور سلامتی کی رات ہے‘‘۔ (سورۂ قدر)
رات کے حواس (سونے کی حالت) میں ہم نہ
کھاتے ہیں، نہ بات کرتے ہیں اور نہ ہی ارادتاً ذہن کو دنیاوی معاملات میں استعمال کرتے
ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مظاہراتی پابندیوں سے بھی آزاد ہو جاتے ہیں۔ انسانی زندگی میں
خواب ایک ایسا عمل ہے جس میں بلا تخصیص ہر انسان ٹائم کو Lessnessکر دیتا ہے یعنی خواب میں انسان پلک جھپکتے ہزاروں لاکھوں میل کا سفر کر لیتا
ہے۔
اگر کوئی انسان خواب کی زندگی سے واقف
ہو جائے تو وقت کی نفی اس کے لئے ایک آسان عمل بن جاتا ہے۔ خواب ایک ماورائی صلاحیت
ہے جس سے غیب کی دنیا کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔
ایک مرتبہ نبی برحقﷺ کا فرمان ہے:
’’اب نبوت میں سے بشارتوں کے علاوہ کچھ
باقی نہ رہا‘‘۔
لوگوں نے پوچھا: ’’بشارت سے کیا مراد
ہے؟‘‘
حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا: ’’اچھا خواب‘‘۔
رسول اللہﷺ پر وحی کا آغاز اچھے خوابوں
کی صورت میں ہوا۔
آپﷺ جو خواب دیکھتے وہ من و عن پورا
ہو جاتا۔
ایک مرتبہ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
نے فرمایا:
’’مومن کا خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ
ہے‘‘۔
مفسرین اس کی تشریح یوں بیان کرتے ہیں
کہ آپﷺ کی عمر مبارک چالیس سال تھی جب آپﷺ پر پہلی وحی نازل ہوئی۔ آپﷺ نے تریسٹھ
63سال کی عمر میں اس دنیا سے پردہ فرمایا۔ وحی کے نزول کا زمانہ 23سال ہے۔ ابتدائی
چھ ماہ کا عرصہ خوابوں پر مشتمل تھا۔ 6ماہ کو 23سال سے وہی نسبت ہے جو ایک کو چھیالیس
سے ہے۔
رات روحانی دنیا میں موجود غیب کے شہود
کا ذریعہ ہے۔ خدا سے تعلق پیدا کرنے اور اس میں استحکام کے لئے، روحانی صلاحیتیں بیدار
کرنے اور وقت کی حد بندیوں کو توڑنے کا ایک طریقہ اللہ تعالیٰ نے آخری شب میں بیدار
ہو کر خود کو خدا کی طرف متوجہ کرنا بتایا ہے۔ صوفیائے کرام اس عمل کو اصطلاحاً مراقبہ
کہتے ہیں۔ خدا نے اپنے دوستوں کی یہی امتیازی خوبی بیان فرمائی ہے کہ وہ راتوں کو اُٹھ
کر اپنے خالق کے سامنے جھکتے ہیں، سجدہ کرتے ہیں اور اپنی خطائوں کی معافی مانگتے ہیں۔
شب بیدار لوگوں کو اطمینان قلب کی دولت نصیب ہوتی ہے۔ ان کے اوپر بشارت کے ذریعے رونما
ہونے والے واقعات کا انکشاف ہوتا ہے، انہیں سچے خواب نظر آتے ہیں۔
غیب کی دنیا سے واقف ہونے کے لئے ہمیں
اسلاف سے جو طریقہ منتقل ہوا وہ مراقبہ ہے۔ مراقبہ آدمی کے اندر رات کے حواس کو بیدار
کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ مراقبہ کا طریقہ یہ ہے کہ کسی پرسکون جگہ جہاں سردی اور
گرمی معمول سے زیادہ نہ ہو پاک صاف ہو کر بیٹھ جائے اور کسی ایک تصور پر ذہن کو مرکوز
کر دے……جب شعوری حواس کا زور کم ہوتا ہے تو آدمی کے اندر وہ حواس بیدار ہونا شروع
ہو جاتے ہیں جن کا تعلق غیب سے ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ
ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور
مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی
اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان
کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو
اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں
تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ
باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب
سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور
لازوال عیش ہے۔