Topics

جولائی 2004؁-پرندوں کے رزق کا قانون

ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ کی مخلوق پرندے اربوں کھربوں کی تعداد میں دانہ چُگتے ہیں……لیکن یہ معمہ حل نہیں ہوتا کہ کسان جب کھیتی کاٹتا ہے تو ایک بھی دانہ نہیں چھوڑتا، ان پرندوں کے لئے کوئی مخصوص کاشت نہیں ہوتی تو پھر یہ پرندے کہاں سے کھاتے ہیں؟……

              قانون یہ ہے کہ پرندوں کا غول جب زمین پر اس ارادے سے اُترتا ہے کہ ہمیں دانا چُگنا ہے تو اس سے پہلے کہ ان کے پنجے زمین پر لگیں، قدرت وہاں دانہ پیدا کر دیتی ہے۔

              اگر پرندوں کی غذا کا دارومدار کسان پرہوتا تو سارے پرندے بھوک سے مر جاتے!……

              جب ہم غور کرتے ہیں تو ہمارے سامنے یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ اللہ اپنی مخلوق کی خدمت کرتا ہے……پیدائش تا مرگ اور مرنے کے بعد اپنی مخلوق کے لئے وسائل کی فراہمی ایک ایسی خدمت ہے جو خالق کائنات کا ذاتی وصف ہے۔ اللہ اپنے ہر بندہ کو، وہ گناہگار ہو یا نیکوکار، رزق عطا فرماتا ہے۔ رزق سے استفادہ کرنے کے لئے صحت عطا کرتا ہے۔ زمین کی بساط پر بکھری ہوئی چیزوں سے فائدہ اٹھانے کے لئے اللہ عقل و شعور کی دولت سے نوازتا ہے۔ ہماری ہر طرح حفاظت کرتا ہے اور محبت کے ساتھ ہماری غلطیوں اور کوتاہیوں کو معاف کر دیتا ہے۔

              اگر آپ اپنے اللہ، اپنے خالق سے متعارف ہو کر اس کی قربت اختیار کر کے کائنات پر اپنی حاکمیت قائم کرنا چاہتے ہیں تو اللہ کی مخلوق کی خدمت کو اپنا شعار بنا لیجئے۔

              بلاشبہ اللہ کی مخلوق سے محبت رکھنے والے لوگ اللہ کے دوست ہوتے ہیں اور دوست پر دوست کی نوازشات و کرامات کی بارش ہوتی رہتی ہے……قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

              ’’نیکی یہ نہیں کہ تم اپنا منہ مشرق اور مغرب کی طرف کر لو لیکن نیکی یہ ہے کہ کوئی شخص ایمان لائے اللہ پر اور یوم آخر پر فرشتوں پر اور کتابوں پر اور رسولوں پر اور مال دیتا ہو اللہ کی محبت میں رشتہ داروں کو اور یتیموں اور مسکینوں کو اور مسافروں کو اورسائل کو اور گردن چھڑانے میں‘‘۔   (البقرہ)

              رحمت کون و مکاں حضرت محمد مصطفی ﷺ کے خلاف مکہ میں سازش ہو رہی تھی۔ کوئی کہتا تھا انہیں شہر سے نکال دو، کوئی کہتا انہیں قتل کر دو!……ان ہی دنوں مکے کو اچانک قحط نے آ گھیرا۔ ایسا قحط کہ قریش کے لوگ پتے اور چھال کھانے پر مجبور ہو گئے۔ بچے بھوک سے بلبلاتے اور بڑے اُن کی حالت زار دیکھ کر تڑپ اٹھتے تھے۔ آپﷺ ان لوگوں کو اس لرزہ خیز مصیبت میں دیکھ کر بے قرار ہو گئے۔ آپﷺ کے مخلص ساتھی بھی آپﷺ کا اضطراب دیکھ کر تڑپ اٹھے۔

              آپﷺ نے اپنے جانی دشمنوں کو جن کے پہنچائے ہوئے زخم ابھی بالکل تازہ تھے۔ اپنی دلی ہمدردی کا پیغام بھیجا اور ابوسفیان اور صفوان کو پانچ سو دینار بھیج کر کہلوایا کہ یہ دینار قحط کے مارے ہوئے غریبوں میں تقسیم کر دیئے جائیں۔

              رسول اللہﷺ کے اُسوہ حسنہ پر عمل کر کے آپ بھی مخلوق خدا کی بے لو ث خدمت کیجئے۔ اپنی کسی خدمت کا بندوں سے صلہ طلب نہ کیجئے، جو کچھ خدا کی خوشنودی کے لئے کیجئے۔

              رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے:

              ’’قیامت کے دن جب کہیں سایہ نہ ہوگا……خدا اپنے اُس بندے کو عرش کے نیچے رکھے گا جس نے انتہائی طریقوں سے خدا کی راہ میں خرچ کیا ہو گا۔ یہاں تک کہ بائیں ہاتھ کو بھی اس کی خبر نہ ہو گی کہ دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا‘‘……

Topics


نورنبوت نور الٰہی-V1

خواجہ شمس الدین عظیمی

زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور لازوال عیش ہے۔