Topics
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی
زندگی نشیب و فراز کا ایک عجیب مرقع ہے…آپﷺ ولادت سے پہلے یتیم ہو گئے۔ ابھی صحیح
طرح شعور کی نشوونما بھی نہیں ہوئی تھی کہ ماں کو موت نے چھین لیا۔ ماں کی جدائی
کو ابھی چند دن ہی گزرے تھے کہ دادا کا سایۂ شفقت بھی سر سے اٹھ گیا۔ جوان ہوئے
تو ناداری رفیق سفر رہی مگر جواں ہمت کبھی مایوس نہیں ہوئی۔ قدم آگے اور آگے
بڑھتے رہے۔ اور ایک دن ایسا آیا کہ ظاہری دولت قدموں میں ڈھیر ہو گئی۔ ظاہری دنیا
کی کوئی ایک ایسی زندگی باقی نہیں رہی جس سے آپﷺ نہ گزرے ہوں۔ زندگی کے اتار
چڑھائو سے جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا شعور بالغ اور تجربہ کار ہو گیا تو خالق
کون و مکاں کی طرف سے چالیس سال کی عمر میں خلوت نبوت عطا ہوئی لیکن اس کے ساتھ ہی
ہر چار طرف سے دشمنی کا ایک باب کھل گیا۔ یہ دشمنی یہاں تک بڑھی کہ دس برس پریشانی
کے حال میں گزرے۔ قصور کیا تھا؟…اللہ کا حبیبﷺ یہ نہیں چاہتا تھا کہ نوع انسانی بت
پرستی اور شرک کی پاداش میں دوزخ کا ایندھن بنے۔ اس کے صلہ میں قوم نے انہیں ایسے
مسائل سے دوچار کر دیا کہ دس برس کی بے شمار تکلیفوں اور مصیبتوں کے بعد عزیزوں کی
مخالفت نے وطن چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔
حضور
پاکﷺ کی استقامت اور صبر قدرت کو پسند آیا تو زمانے نے رنگ بدلا اور صدائے لا الہ الا اللہ محمد
الرسول اللہ کی صدائوں نے حدود عرب سے نکل کر قیصر و کسریٰ کے ایوانوں میں غلغلہ
ڈال دیا لیکن…آپﷺ جس طرح بچپن میں بکریاں چرایا کرتے تھے اسی طرح نبوت اور سلطنت
مل جانے کے بعد بھی سادہ زندگی بسر کی۔ ہمیشہ اپنا کام اپنے ہاتھوں سے کیا۔ خود کو
کبھی اوروں سے ممتاز نہیں کیا۔ جیسے اور لوگ اپنے گھروں میں کام کرتے تھے آپ صلی
اللہ علیہ و سلم بھی خود اپنا کام کرتے تھے، خود ہی بکری کا دودھ دوہتے تھے، خود
ہی اپنے کپڑے سیتے تھے، خود ہی جوتیاں گانٹھ لیتے تھے۔ مدینہ منورہ میں جب مسجد
نبوی کی تعمیر ہو رہی تھی تو آپﷺ بہ نفس نفیس سب کاموں میں شریک تھے۔ یہاں تک کہ
مزدور کی طرح آپﷺ اینٹیں اٹھا اٹھا کر
لاتے تھے…ملبوسات میں سادگی کا یہ عالم تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا لباس
قمیض، چادر اور تہبند اور عمامہ تھا۔ یہ سب چیزیں بالعموم معمولی قسم کے سوتی کپڑے
کی ہوتی تھیں…مگر یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ یہ فقیرانہ زندگی بے نوائی اور
تنگدستی کی وجہ سے نہیں تھی۔ نہ رہبانیت اور گوشہ نشینی اور دنیا سے بے تعلقی کی
وجہ سے تھے بلکہ یہ سب اس لئے تھا کہ امت کیلئے مثال قائم ہو جائے…سب کچھ ہوتے
ہوئے بھی سادہ زندگی گزارنے میں عافیت اور سکون ہے۔
ابوہریرہؓ
سے رویات ہے کہ لوگوں نے آپﷺ سے کہا کہ مشرکین کیلئے بدعا کیجئے۔ آپﷺ نے فرمایا۔
’’میں بُرا چاہنے کے لئے نہیں آیا، مجھے اللہ تعالیٰ نے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔‘‘
آپﷺ کا اخلاق حسنہ یہ تھا کہ مدینہ میں لوگ اکثر صبح ہی پانی لے کر آپﷺ کی خدمت
میں حاضر ہو جاتے تھے تا کہ آپﷺ اس میں برکت کے لئے ہاتھ ڈال دیں۔ کتنی ہی زیادہ
سردی کیوں نہ ہو۔ آپﷺ لوگوں کو مایوس نہیں فرماتے تھے اور پانی میں ہاتھ ڈال دیتے
تھے۔ اگر کسی کنیز کو بھی کچھ ضرورت ہوتی تو آپﷺ کا ہاتھ پکڑ کر جہاں چاہتی لے
جاتی اور آپﷺ کبھی جانے میں تعامل نہیں فرماتے تھے۔
آپﷺ
کی شادی عین جوانی میں حضرت خدیجہؓ سے ہوئی۔ حضرت خدیجہؓ عمر میں آپﷺ سے پندرہ
سال بڑی تھیں لیکن پچیس برس کا ساتھ حسن معاشرت کا ایک بے مثل نمونہ ہے۔ اس تمام
مدت میں کوئی بات ایسی پیش نہیں آئی جو ذرا دیر کے لئے بھی کسی قسم کی رنجش کا
باعث بنتی۔ جب آپﷺ قربانی فرماتے تو سب سے پہلے حضرت خدیجہؓ مرحومہ کے ملنے جلنے
والی عورتوں کے ہاں حصہ بھجواتے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم حضرت خدیجہؓ کی وفات
کے بعد بھی ان کا ذکر ایسی دلی محبت سے فرمایا کرتے تھے کہ حضرت عائشہؓ کو شک ہونے
لگتا تھا۔ حالانکہ حضرت عائشہؓ ازواج مطہرہ میں سب سے زیادہ محبوب اور منظور نظر
تھیں۔
آپ
صلی اللہ علیہ و سلم بچوں سے بہت پیار کرتے تھے…چونکہ اس زمانے میں لڑکیوں کو
حقارت سے دیکھا جاتا تھا۔ آپﷺ اپنی نواسی نبت زینب کو گود میں لے کر کاندھے پر
بٹھا کر نماز قائم فرماتے تھے۔ جب رکوع میں جاتے تو ایک طرف بٹھا دیتے تھے اور جب
قیام فرماتے اٹھا کر گود میں بٹھا لیتے تھے۔
انسؓ
کہتے ہیں…آپ صلی اللہ علیہ و سلم، ان کے چھوٹے بھائی ابو عمیر کے ساتھ کھیلا کرتے
تھے۔ ابو عمیر نے ایک بلبل پال رکھی تھی اور اس سے اسے بہت محبت تھی۔ آپﷺ اس سے
فرمایا کرتے تھے۔ ’’اے عمیر! بلبل کیسی ہے؟…اس کا کیا حال ہے؟‘‘
ام
خالد بنت خالد کہتی ہیں کہ ایک دن میں اپنے والد کے ساتھ جنات رسالت مآب ﷺ کی
خدمت میں حاضر ہوئی۔ میں اس وقت زرد قمیض پہنے ہوئے تھی۔ آپﷺ نے دیکھ کر فرمایا۔
’’یہ بہت اچھی ہے، بہت اچھی ہے۔‘‘ پھر میں آپﷺ کی پشت میں جا کر مہر نبوت سے
کھیلنے لگی۔ میرے والد نے مجھے ڈانٹا۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے میرے والد
سے فرمایا۔ ’’اسے کھیلنے دو۔‘‘
آپﷺ
جب مکہ تشریف لائے تو عبدالمطلب کے بچے آپﷺ کے استقبال کے لئے بھاگے ہوئے آئے۔
آپﷺ نے نہایت شفقت سے ان میں سے ایک کو اپنے آگے اور دوسرے کو اپنے پیچھے سوار
کر لیا۔
آپﷺ
کی ہر ایک بات، ہر ایک کام اور ہر ایک تعلق اللہ تعالیٰ کے اس اعلان کی مجسم تصدیق
اور ثبوت تھا:
’’اور
ہم نے تجھے تمام دنیا والوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔‘‘
خواجہ شمس الدین عظیمی
زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ
ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور
مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی
اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان
کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو
اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں
تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ
باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب
سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور
لازوال عیش ہے۔