Topics
’’اور اُن لوگوں کو خوشخبری دے
دیجئے جو مصیبت پڑنے پر کہتے ہیں ہم خدا کے ہیں اور ہمیں خدا ہی کی طرف لوٹ کر جانا
ہے۔ ان پر اُن کے رب کی طرف سے بڑی عنایت ہو گی اور اس کی رحمت ہو گی اور ایسے ہی لوگ
راہِ ہدایت پر ہیں‘‘۔ (القرآن)
تمام انبیائے کرام علیہم السلام کا ذہن
یہی تھا کہ وہ ہر معاملے میں اللہ پر بھروسہ کرتے تھے اور ہر آزمائش میں ثابت قدم
رہتے تھے۔ انبیائے کرام علیہم السلام جب کسی چیز کے متعلق سوچتے تو اس چیز کے اور اپنے
درمیان کوئی رشتہ براہ راست قائم نہیں کرتے تھے۔ ہمیشہ اُن کی طرزِ فکر یہ ہوتی تھی
کہ کائنات کی تمام چیزوں کا اور ہمارا مالک اللہ تعالیٰ ہے……کسی چیز کا رشتہ ہم سے
براہ راست نہیں بلکہ ہم سے ہر چیز کا رشتہ اللہ تعالیٰ کی معرفت ہے۔
جب اُن کی یہ طرزِ فکر ہوتی تھی تو اُن
کے ذہن کی ہر حرکت میں پہلے اللہ کا احساس ہوتا تھا۔ اللہ تعالیٰ ہی بحیثیت محسوس کے
ان کا مخاطب اور مدِّنظر قرار پاتا تھا……قانون کی رُو سے اللہ تعالیٰ کی صفات ہی اُن
کا احساس بنتی تھی……اور اُن کا ذہن اللہ تعالیٰ کی صفات کا قائم مقام بن جاتا تھا۔
نورِ نبوت
حضور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ
و سلم کا ارشاد ہے:
’’جس کے پاس سواری کے لئے زائد اونٹ
ہیں وہ اُسے دے دے جس کے پاس سواری نہیں……جس کے پاس زائد زادِ راہ ہو وہ اُسے دے دے
جس کے پاس زادِ راہ نہیں‘‘۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے کبھی
دولت کے ارتکاز کو پسند نہیں فرمایا۔ ہمیشہ اُسے بھلائی کی راہ میں خرچ فرمایا۔ تمام
عمر یتیموں، بیوائوں اور حاجت مندوں کی سرپرستی حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا شیوہ
رہی۔
جب ہم غور کرتے ہیں تو ہمارے سامنے یہ
بات واضح ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ بھی ہر وقت اور ہر آن اپنی مخلوق کی خدمت میں
مشغول ہیں۔ مخلوق کی خدمت اور اُس کی زندگی کے لئے وسائل فراہم کرتے ہیں۔ لیکن اس معاملے
میں مخلوق سے کوئی صلہ یا بدلہ نہیں چاہتے۔
اگر ہم کسی شخص سے قربت حاصل کرنا چاہتے
ہیں تو ہمیں بھی وہی کرنا ہو گا جو ہمارا مطلوب کرتا ہے۔ اگر ہم اللہ تعالیٰ سے دوستی
کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں بھی وہی کرنا ہو گا جو اللہ تعالیٰ کرتے ہیں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ
ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور
مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی
اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان
کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو
اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں
تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ
باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب
سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور
لازوال عیش ہے۔