Topics

اکتوبر 1983؁ء۔قرآن پاک کا سمجھنا

قرآن پاک نوع انسانی پر اللہ تعالیٰ کا احسان عظیم ہے جو اس نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و سلم کے ذریعے ہم پر کیا ہے۔ یہ وہ کتاب ہے جو ہر قسم کے شک و شبہ سے پاک ہے اور اس میں ہدایت کے طلبگاروں کے لئے سامان نجات ہے۔ اس مقدس صحیفے میں سب کچھ سمو دیا گیا ہے۔ معیشت اور معاشرت کے اصولوں سے لے کر تخلیق و تسخیر کائنات کے فارمولے سب کچھ اس میں موجود ہیں۔ کوئی چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی چیز ایسی نہیں ہے جو اس کے دائرۂ بیان میں نہ آتی ہو۔

                اللہ تعالیٰ قرآن پاک کا حق ہم پر یہ بتاتے ہیں:

                ’’کتاب جو ہم نے آپ کی طرف بھیجی برکت والی ہے تا کہ وہ اس میں غور و فکر کریں اور عقل والے اس سے نصیحت حاصل کریں۔‘‘

                چنانچہ ہمیں چاہئے کہ قرآن پاک کو محض ثواب و برکت کا ذریعہ سمجھ کر بے سوچے سمجھے نہ پڑھیں یا طاقوں کی زینت بنا کر نہ رکھیں بلکہ اس میں تفکر کریں جیسا کہ غور و فکر کرنے کا حق ہے۔

                اللہ رب العزت نے فہم قرآن عطا کرنے کا ذمہ خود لیا ہے۔

                ارشاد خداوندی ہے کہ

                ’’ہم نے قرآن کا سمجھنا آسان کر دیا ہے، کیا ہے کوئی سمجھنے والا؟‘‘

                اس آیت مبارکہ کی روشنی میں ہم پر یہ لازم ہے کہ اس عطیۂ خداوندی سے فیض اٹھاتے ہوئے قرآن پاک میں غور و فکر کو اپنا شعار بنائیں تا کہ ہماری روحیں نور ہدایت سے منور ہو جائیں اور ہم ان صفات کو حاصل کر سکیں جن سے  بندے کے لئے آسمان و زمین مسخر ہو جاتے ہیں۔


                ہمارے آقا سرور کونین محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ و سلم کو قرآن پاک سے بہت شغف تھا۔ آپﷺ نہ صرف قرآن پاک کی تلاوت کرنا پسند فرماتے تھے بلکہ دوسروں سے بھی سن کر خوش ہوتے تھے۔ ہر سال رمضان المبارک میں حضرت جبرائیل علیہ السلام کو قرآن پاک سناتے تھے۔ حالت قیام بھی آپﷺ قرآنی آیات نہایت انہماک اور توجہ سے پڑھتے تھے اور ایک ایک حرف واضح ایک ایک آیت الگ ہوتی تھی۔

                آپﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ

                ’’اپنی آواز اور اپنے لہجے سے قرآن کو آراستہ کرو۔‘‘

                رحمت اللعالمینﷺ نے یہ بشارت بھی دی ہے کہ

                ’’قرآن پاک پڑھنے والوں سے قیامت کے روز کہا جائے گا۔ جس ٹھہرائو اور خوش الحانی سے تم دنیا میں بنا سنوار کر قرآن پڑھا کرتے تھے اسی طرح قرآن کی تلاوت کرو اور ہر آیت کے صلے میں ایک درجہ بلند ہوتے جائو۔ تمہارا ٹھکانہ تمہاری تلاوت کی آخری آیت کے قریب ہے۔‘‘

                قرآن کریم تھوڑا تھوڑا روزانہ پڑھیئے۔ اور اس کے معانی اور حکمتوں میں غور کیجئے۔ نہ یہ کہ جلدی جلدی وافر حصہ تلاوت کر لیا جائے اور معانی میں غور و فکر نہ کیا جائے۔ قرآن پاک میں تسخیری علوم و فارمولوں کا خزانہ پوشیدہ ہے۔ جتنی ذہنی توجہ اور اخلاص سے ہم اس کو تلاش کریں گے اتنا ہی ہم پر یہ منکشف ہوتا جائے گا۔

                حضرت عبداللہ ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ میں ’’القارعہ‘‘ اور ’’القدر‘‘ جیسی چھوٹی سورتوں کو معافی اور مفہوم کے اعتبار سے سوچ سمجھ کر پڑھنا اس سے زیادہ بہتر سمجھتا ہوں کہ ’’البقرہ‘‘ اور ’’آل عمران‘‘ جیسی بڑی بڑی سورتیں جلدی جلدی پڑھ جائوں اور کچھ نہ سمجھوں۔

                حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم بھی ایک مرتبہ ساری رات ایک ہی آیت تلاوت فرماتے رہے۔

                ’’اے خدا! اگر تو ان کو عذاب دے تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو ان کو بخش دے تو تُو انتہائی زبردست اور حکمت والا ہے۔‘‘

Topics


نورنبوت نور الٰہی-V1

خواجہ شمس الدین عظیمی

زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور لازوال عیش ہے۔