Topics

ستمبر2000؁ء۔ذکر

                ’’وہ لوگ جو ایمان لائے ان کے دل اللہ کے ذکر سے اطمینان حاصل کرتے ہیں۔ آگاہ رہو دلوں کو اطمینان اللہ کے ذکر سے ہی ملتا ہے۔‘‘ (سورہ رعد)

                ’’اے ایمان والو! تمہارا مال اور تمہاری اولاد تمہیں اللہ کے ذکر سے غافل نہ کر دیں۔ جو اللہ کے ذکر سے غافل ہو گیا تو یہی وہ لوگ ہیں جو خسارہ میں ہیں۔‘‘ (سورہ منافقون)

                ذکر کے لغوی معنی یاد کرنے کے ہیں۔ تذکرہ کرنے کو بھی ذکر کہتے ہیں۔ اس لئے کہ تذکرہ کرنا کسی کو یاد کرنے کا اظہار ہے۔ آدمی جب کسی کا نام لیتا ہے، اس کی صفت بیان کرتا ہے تو یہ عمل اس کا ذہنی تعلق مذکور کے ساتھ قائم کرتا ہے۔

                ذکر کا پہلا مرتبہ یہ ہے کہ اللہ کے کسی اسم یا صفت کو زبان سے بار بار دہرایا جائے۔ جب تک کوئی شخص اس عمل میں مشغول رہتا ہے اس کا ذہن بھی کم و بیش اسی خیال پر قائم رہتا ہے۔ اگرچہ وقتی طور پر ذہن ذکر سے ہٹ بھی جاتا ہے لیکن ذکر کی میکانکی حرکت غیر شعوری ارادے کو ذکر سے ہٹنے نہیں دیتی۔ اسے اہل روحانیت نے ذکرِ لسانی کہا ہے۔

                کسی اسم کو مسلسل دہرانے سے ایک ہی خیال ذہن پر نقش ہو جاتا ہے۔ شعوری ارتکاز بڑھنے لگتا ہے اور ذہن کو ایک خیال پر قائم رہنے کی مشق ہو جاتی ہے۔ جب ایسا ہوتا ہے تو ذاکر زبان سے الفاظ ادا کرنے میں بار محسوس کرتا ہے اور عالم خیال میں الفاظ ادا کرنے میں اسے سرور حاصل ہوتا ہے چنانچہ وہ ذکر لسانی سے ہٹ کر ذکر خفی کرنے لگتا ہے۔ اس درجہ کو ذکر قلبی کہا جاتا ہے۔

                پھر ایک ایسا موقع آتا ہے کہ آدمی خفی طور پر اسم کو دہرانے میں بھی ثقل محسوس کرتا ہے بلکہ اسم کا خیال اس پر غالب آ جاتا ہے اور وہ عالم تصور میں پوری وجدانی کیفیت کے ساتھ اسم کے خیال میں ڈوب جاتا ہے۔ ذکر کا یہ مرتبہ یا طریقہ جس میں کوئی شخص اسم کے معانی کا تصور قائم رکھتا ہے مراقبہ کہلاتا ہے۔ ذکر کے تمام طریقوں کا مقصد ذاکر کے اندر اتنی صلاحیت پیدا کرنا ہے کہ اس کی توجہ کسی اسم کے اندر جذب ہو جائے۔ پہلے پہل ذاکر خیال کو قائم کرتا ہے اور مسلسل توجہ سے یہ خیال اس کے تمام ذہنی و جسمانی افعال کے ساتھ اس کے شعور پر غالب آ جاتا ہے۔ وہ اللہ کے ساتھ مسلسل ربط حاصل کر لیتا ہے اور کوئی وقت ایسا نہیں گزرتا جب یہ کیفیت اس پر طاری نہ ہو۔ جب یہ کیفیت شعور کا حصہ بن جاتی ہے تو ذاکر کی روح عالم ملکوت کی طرف صعود کرتی ہے اور وہ کشف و الہام سے سرفراز ہوتا ہے۔

 

نورِ نبوت

                سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:

                ’’جب کچھ لوگ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہیں تو فرشتے انہیں گھیر لیتے ہیں۔ رحمت الٰہی ان کو ڈھانپ لیتی ہے اور ان پر سکون نازل ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنی بارگاہ میں ان کا تذکرہ کرتا ہے۔‘‘

                سکون اور خوشی کوئی خارجی شئے نہیں ہے۔ یہ ایک اندرونی کیفیت ہے۔ اس اندرونی کیفیت سے جب ہم آشنا ہو جاتے ہیں تو سکون و اطمینان کی بارش ہونے لگتی ہے۔ بندہ اس ہمہ گیر طرز فکر سے آشنا ہو کر مصیبتوں، پریشانیوں اور عذاب ناک زندگی سے رستگاری حاصل کر کے اس حقیقی مسرت اور شادمانی سے واقف ہو جاتا ہے جو بندوں کا حق اور ورثہ ہے۔

                جس کے پاس زر و جواہر کے انبار ہیں وہ بھی دو روٹی کھاتا ہے اور ستر پوشی کے لئے دو کپڑے پہنتا ہے۔ جس کے پاس دولت نہیں ہے وہ بھی دو روٹی کھاتا ہے اور دو کپڑے زیب تن کرتا ہے۔ جس کے پاس دس کمروں کا محل ہے وہ ایک چارپائی کی جگہ پر ہی ہوتا ہے۔ کسی نے نہیں دیکھا کہ محل میں رہنے والا آدمی سوتے وقت اتنا پھیل جاتا ہو کہ سونے کے لئے ایک چارپائی سے زیادہ جگہ کی ضرورت اسے پیش آئے۔

                دونوں حالتوں میں یہ ضروری ہے کہ آپ سکون آشنا زندگی سے ہمکنار ہوں۔ سکون آشنا زندگی سے ہم آغوش ہونے اور اطمینان قلب کے لئے ایک الگ طرز فکر ہے اور وہ طرز فکر یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ سے واقف ہو۔ خود سے وقوف حاصل کرنا حقیقت پسندانہ عمل ہے اور حقیقت سے فرار فکشن اور مفروضہ زندگی ہے۔

                ہر آدمی جنت اور دوزخ اپنے ساتھ لئے پھرتا ہے اس کا تعلق طرز فکر سے ہے۔ طرز فکر آزادانہ اور انبیاء علیہم السلام کے مطابق ہے تو آدمی کی ساری زندگی جنت ہے۔ طرز فکر میں ابلیسیت ہے تو تمام زندگی دوزخ ہے۔

                بے قراری اور اضطراب سے رستگاری حاصل کرنے کے لئے اسلاف سے ہمیں جو ورثہ ملا ہے اس کا نام مراقبہ ہے۔ مراقبہ کے ذریعے ہم اپنے اندر مخفی صفات کو منظر عام پر لا سکتے ہیں۔ ہم خود اپنا ادراک کر سکتے ہیں۔ ماضی اور مستقبل بھی ہمارے سامنے ایک کھلی کتاب بن جاتا ہے اور اس ادراک کی روشنی میں خوش آئند زندگی ہمارا مقصد بن جاتی ہے۔

Topics


نورنبوت نور الٰہی-V1

خواجہ شمس الدین عظیمی

زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور لازوال عیش ہے۔