Topics
بخت
نضر نے یروشلم کو تاراج کر کے جب پیوند زمین کر دیا اور شہر کے رہنے والوں کو تہہ تیغ
کر کے محلات اور مکانات منہدم کر دیئے تو وہاں حضرت عزیر علیہ السلام کا گزر ہوا۔
انہوں
نے دیکھا کہ ساری بستی کھنڈر بن گئی ہے۔ مکان ہیں نہ مکیں۔ بازار ہیں نہ خریدار۔ انہوں
نے استغراق کے عالم میں سوچا۔ بھلا اتنا بڑا پُررونق اور عظیم شہر دوبارہ کس طرح آباد
ہو گا؟
اللہ
تعالیٰ نے ان کے اوپر موت طاری کر دی۔ یہاں تک کہ ستر سال کے بعد یروشلم پھر آباد
ہو گیا اور شہر کی رونق بحال ہو گئی۔ انسانوں سے مانوس چرندوں اور پرندوں سے شہر بھر
گیا۔ خوشنما پھولوں سے مزین باغات نظر آنے لگے وہی پہلے سی رونق، چہل پہل، ہما ہمی
اور گہما گہمی پیدا ہو گئی۔ جب سو سال پورے ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت عزیر علیہ
السلام کو دوبارہ زندہ کر دیا۔ پہلے ان کی روح ان کی آنکھوں میں اتری تا کہ حضرت عزیر
علیہ السلام دوبارہ زندہ ہونا بھی خود ہی دیکھ لیں۔ جب روح نے حضرت عزیر علیہ السلام
کے پورے جسم کو اپنا لباس بنا لیا تو اللہ تعالیٰ نے پوچھا:
’’اے
عزیر! تم کتنے دن مُردہ رہے؟‘‘
جواب
میں حضرت عزیر علیہ السلام نے کہا:
’’ابھی
تو ایک دن بھی پورا نہیں ہوا۔‘‘
اللہ
تعالیٰ نے فرمایا۔ ’’تم سو سال تک مردہ رہے۔ اب ہماری قدرت دیکھو تمہارا زاد راہ انگور،
انجیر اور پھلوں کا رس خراب نہیں ہوا۔ ہر چیز اپنی اصل حالت میں ہے اور تمہاری سواری
کا گدھا جس کی بوسیدہ ہڈیاں تمہارے سامنے پڑی ہیں۔ ہم اسے ابھی تمہاری آنکھوں کے سامنے
زندہ کر دیتے ہیں۔‘‘
چنانچہ
سو سال تک مردہ پڑے ہوئے گدھے کی بوسیدہ ہڈیاں جو ان کے دائیں بائیں بکھری پڑی تھیں
ایک ایک کر کے پیوست ہونا شروع ہو گئیں۔ یہاں تک کہ گدھے کا ڈھانچہ مکمل ہو گیا۔ جس
پر گوشت نہیں تھا۔ پھر یہ ڈھانچہ ایک ترتیب اور معین مقداروں سے گوشت اور کھال کے ساتھ
زندہ ہو گیا۔
موت
و حیات کی زندگی اور یقین کی دنیا میں بلاشبہ حضرت عزیر علیہ السلام کا واقعہ تازیانۂ
عبرت ہے……اے وہ لوگو! جو دنیا کی منفعت کو ہی اپنا سرمایۂ حیات سمجھتے ہو……تمہیں ایک
روز یہ سب کچھ چھوڑ کر دوسری دنیا میں جانا ہے۔ پھر اسی جسم کے ساتھ زندہ ہونا ہے……اور
یہ دنیا، وہ دنیا ہے جہاں دنیا کی سرمایہ کاری کام نہیں آئے گی……جو آدمی لالچ اور
طمع میں مر گیا وہ وہاں مفلس، قلاش اور تہی دست ہو گا……! مادیت جب زندگی میں رچ بس
جاتی ہے تو عقل و شعور کو بھی مادی توجیہہ کے بغیر سننے اور سمجھنے کے لئے تیا رنہیں
ہوتا۔ مادی زندگی کے بعد دوسری ماورائی زندگی حکایت اور افسانہ بن جاتی ہے۔ جزا اور
سزا کا قانون ذہن سے نکل جاتا ہے اور جب یہ صورتحال واقع ہو جاتی ہے تو آدم کا بیٹا
اور حوا کی بیٹی دنیا اور دنیا کی منفعت ہی کو سب کچھ سمجھنے لگتے ہیں۔ مادیت پرست
شخص ہر اس شئے کی طرف مائل رہتا ہے جو اس کے خیال میں اسے نفع پہنچا سکتی ہے۔ کسی بندہ
کے اوپر جب دوسرے عالم میں منتقل ہو کر دوسری زندگی گزارنے کا یقین ٹوٹ جاتا ہے تو
اس کے اوپر توہمات اور وسوسے یلغار کر دیتے ہیں۔ معکوس خیالات اور منفی احساسات اس
کے ارد گرد ایسا جال بُن دیتے ہیں کہ وہ بے دست و پا ہو کر زندہ درگور ہو جاتا ہے اور
اور پھر وہ خود اپنی انا کے خول میں اسی طرح بند ہو جاتا ہے۔ زمانہ کا ٹھکرایا ہوا
ایسا انسان بن جاتا ہے جس کو خوف اور غم کے دبیز سائے ہشت پا (Octopus) بن کر اس کی زندگی میں دوڑنے
والے خون کا ایک ایک قطرہ نچوڑ لیتے ہیں اور وہ یاد ماضی کو عذاب اور مستقبل کی تاریکی
کو اپنا مقدر بنا لیتا ہے۔ سیم و زر اور جواہرات کسی کام نہیں آتے۔ وہ خود اپنے سائے
سے بھی ڈرنے لگتا ہے اور اپنی ہی آواز سے کانپ کانپ جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کے دل
پر اور کانوں پر مہر لگ جاتی ہے اور آنکھوں پر پردہ آ جاتا ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ
ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور
مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی
اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان
کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو
اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں
تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ
باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب
سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور
لازوال عیش ہے۔