Topics

اگست 2001؁۔بہتر عبادت گذار

’’اور بے شک ہم نے تم کو زمین پر رہنے کے لئے جگہ دی اور ہم نے تمہارے لئے اس میں سامان زندگی پیدا کیا‘‘۔  (سورہ اعراف)

              ’’اور ہم نے تمہارے لئے وہاں معاش کے سامان بنا دیئے اور ان کو بھی معاش دیا جن کو تم روزی نہیں دے سکتے‘‘۔  (سورہ الحجر)

              جب ہم کائنات میں پھیلی اللہ تعالیٰ کی نشانیوں پر غور کرتے ہیں تو ہمارے سامنے یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ اللہ اپنی مخلوق کی خدمت کرتا ہے۔ پیدائش سے تامرگ اور مرنے کے بعد اپنی مخلوق کے لئے وسائل کی فراہمی ایک ایسی خدمت ہے جو خالقِ کائنات کا ایک ذاتی وصف ہے۔ اللہ اپنے ہر بندے کو، وہ گناہگار ہو یا نیکو کار، رزق عطا فرماتا ہے۔ رزق سے استفادہ کرنے کے لئے صحت عطا کرتا ہے۔ زمین کی بساط پر بکھری ہوئی چیزوں سے فائدہ اٹھانے کے لئے اللہ عقل و شعور کی دولت سے نوازتا ہے اور بلاشبہ عبادت اور ذکر و نوافل کی دین میں بڑی اہمیت ہے لیکن عبادت اور ذکر کی کوئی ایسی مشغولیت جو آدمی کو معاشرتی ذمہ داریوں سے غافل کر دے اور وہ دنیا کے کسی مصرف ہی کا نہ رہے، اسلام کی نظر میں ہرگز پسندیدہ نہیں۔ اللہ اور رسولﷺ کو ایسا شخص بہت پسند ہے جو عبادات سے بھی شغف رکھے، انسانی حقوق بھی ادا کرے اور دنیاوی ذمہ داریاں ادا کرنے میں بھی چاق و چوبند ہو۔

              ایک مرتبہ رسول اللہﷺ کی خدمت میں چند صحابی حاضر ہوئے اور اپنے ہم سفر ساتھی کی بہت تعریف کرنے لگے اس جیسا نیک تو ہم نے کسی کو پایا ہی نہیں۔ سفر کے دوران وہ قرآن کی تلاوت میں لگا رہا اور جب بھی ہمارا قافلہ کسی جگہ پڑائو کرتا یہ شخص کسی دوسرے کام کی طرف توجہ نہ دیتا بس عبادات میں مشغول ہو جاتا۔آپﷺ نے ان سے پوچھا ’’پھر اس شخص کے سامان کی حفاظت کون کرتا تھا اور اس کے اونٹ کو چارہ پانی کون دیتا تھا؟‘‘ صحابہ کرامؓ نے بتایا ’’ہم سب مل کر اس کے سامان کی حفاظت کرتے اور اس کے اونٹ کو چارہ پانی دیتے تھے‘‘۔ یہ جواب سن کر آپﷺ نے فیصلہ کن انداز میں فرمایا ’’تب تم لوگ اس عبادت گزار سے بہتر ہو‘‘۔

              نبی اکرمﷺ نے حضرت سلمان فارسیؓ اور ابودردائؓ کے درمیان مواخات (بھائی چارہ) قائم کرائی تھی۔ ایک مرتبہ جب سلمانؓ حضرت ابودردائؓ کے گھر گئے تو دیکھا کہ ان کی بیوی ام دردائؓ بہت معمولی لباس میں ہیں۔ حضرت سلمانؓ نے ان سے سوال کیا کہ ’’آپ یہ کس حال میں ہیں؟‘‘ تو کہنے لگیں کہ ’’آپ کے بھائی ابودردائؓ کو دنیا سے کوئی مطلب نہیں ہے۔ وہ عبادات میں ہی مصروف رہتے ہیں‘‘۔ اس کے بعد حضرت ابودردائؓ گھر آئے تو کھانا تیار کیا گیا۔ حضرت ابودردائؓ نے حضرت سلمانؓ سے کہا کہ ’’آپ کھانا تناول فرمائیں کیونکہ میں روزہ سے ہوں‘‘۔ حضرت سلمانؓ نے فرمایا کہ ’’جب تک آپ نہیں کھائیں گے میں بھی نہیں کھائوں گا‘‘۔ چنانچہ حضرت ابو دردائؓ نے ان کے ساتھ کھانا کھایا۔ جب رات ہو گئی تو حضرت ابودردائؓ نماز ادا کرنے کھڑے ہوئے تو حضرت سلمانؓ نے ان سے کہا ’’سو جایئے‘‘ چنانچہ سو گئے۔ کچھ دیر بعد اٹھ کر نماز کے لئے کھڑے ہوئے تو حضرت سلمانؓ نے ان سے کہا ’’سو جایئے‘‘۔ رات کا آخری حصہ ہوا تو حضرت سلمانؓ اٹھے اور کہا ’’اب اٹھ جایئے ہم دونوں نماز ادا کریں‘‘۔ پھر حضرت سلمانؓ نے ان سے فرمایا ’’بے شک آپ کے رب کا آپ پر حق ہے لیکن آپ کی ذات کا حق بھی آپ پر ہے اور آپ کے اہل و عیال کا بھی…لہٰذا ہر صاحبِ حق کو اس کا حق دیجئے‘‘۔ اگلے روز حضرت ابودردائؓ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہو کر اس واقعہ کا ذکر کیا تو سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ’’سلمان نے سچ کہا‘‘۔

                رسول اللہﷺ نے اس بات کی تلقین فرمائی ہے کہ عبادات اور عام زندگی میں میانہ روی اور اعتدال اختیار کیا جائے۔ ایک مرتبہ ارشاد فرمایا ’’ ہر شئے میں ایک دلچسپی ہوتی ہے اور ہر دلچسپی کی ایک حد۔ اگر کوئی شخص اپنی عبادات کی دلچسپی میں اعتدال کو قائم رکھے اور غلو سے بچتا رہے تو اس کے متعلق اچھی امید رکھو اور اگر (کثرتِ عبادت کی وجہ سے) اس کی طرف انگلیاں اٹھنے لگیں تو اسے کسی شمار میں نہ لائو‘‘۔ اللہ تعالیٰ ایک بندۂ مومن کو ہر لحاظ سے مکمل کردار کا حامل دیکھنا چاہتے ہیں ایسا بندہ جو اللہ تعالیٰ کی عبادت پوری یکسوئی کے ساتھ کرے۔ ساتھ ہی اپنی معاشرتی ذمہ داریوں کو بھی دیانت داری سے ادا کرے۔ وہ اپنی ذات، اہل خانہ و خاندان اور دیگر لوگوں کے حقوق کی ادائیگی بہتر انداز میں کرتا ہو۔

Topics


نورنبوت نور الٰہی-V1

خواجہ شمس الدین عظیمی

زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور لازوال عیش ہے۔