Topics
قرآن مجید میں ارشاد
باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: ’’اور ہم نے آپ صلی اللہ علیہ
و آلہٖ و سلم کو عالمین کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے‘‘۔
(سورۂ انبیائ۔ آیت 107)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم
رحمت اللعالمین ہیں۔ اس نسبت سے جب مسلمان کلمہ پڑھ کر اپنی نسبت رسول اللہ صلی اللہ
علیہ و آلہٖ و سلم سے قائم کر لیتا ہے تو مسلمان کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم
کی ’’نسبتِ رحمت) منتقل ہو جاتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے صبر و تحمل
کا یہ عالم تھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے اہلِ طائف کو اللہ کا پیغام
سنایا تو طائف کے شریر لڑکوں نے پتھر مار مار کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو
لہولہان کر دیا۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا :
’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ
وسلم! ان کے لئے بددعا کیجئے‘‘۔
تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم
نے فرمایا: ’’میں لوگوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں‘‘۔
رحمت اللعالمین سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام کے اُمتی مسلمان اگر اپنے بھائیوں کے لئے رحمت نہیں ہیں تو انہیں سوائے محرومی
کے اور کیا ملے گا؟……
نورِ نبوت
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم
نے فرمایا:
’’جس نے اللہ کے لئے دوستی رکھی اور
اللہ کے لئے دشمنی رکھی اور اللہ کے لئے دیا اور اللہ کے لئے روک رکھا، اس نے اپنے
ایمان کو مکمل کیا‘‘۔ (ابودائود)
اللہ کے محبوب، سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام نے نوعِ انساں کو یہ یاد دلایا کہ انسان کا تخلیقی رشتہ اللہ رب العزت کے ساتھ
وابستہ ہے۔ اس رشتہ کو فراموش کر کے کوئی بندہ سکون و اطمینان حاصل نہیں کر سکتا۔
انسانوں کے انسانوں پر حقوق ہوں یا انسان
کا کائنات سے تعلق یہ سب ایک ہی بنیاد پر قائم ہیں اور وہ یہ کہ ہمارا اور سب چیزوں
کا خالق و مالک اللہ ہے۔
خاتم النبیین صلی اللہ علیہ و آلہٖ
و سلم نے یہ حرفِ راز بتایا کہ بندہ خالق کو اسی وقت پہچان سکتا ہے جب اس کا ہر عمل
صرف اور صرف اللہ کے لئے ہو۔ جب بندہ کی ذاتی غرض درمیان میں نہیں رہتی تو بندہ اور
خالق کے درمیان رابطہ قائم ہو جاتا ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ
ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور
مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی
اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان
کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو
اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں
تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ
باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب
سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور
لازوال عیش ہے۔