Topics
’’کہہ دیجئے! اگر تم اللہ سے محبت
کرتے ہو تو میری پیروی کرو۔ اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا‘‘۔ (القرآن)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم
کا اُسوۂ مبارک یہ ہے کہ اکثر راستے میں بچے کھیلتے مل جاتے تو حضور صلی اللہ علیہ
و آلہ و سلم نہایت متبسم ہو کر بڑی محبت سے انہیں سلام کرتے، اُنہیں چومتے، اُن کے
ساتھ پیار بھری باتیں کرتے، ہنسی مذاق اور دل لگی کرتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و
آلہ و سلم کی بچوں سے شفقت و محبت بھرے سلوک کی وجہ سے بچے بھی حضور صلی اللہ علیہ
و آلہ سلم سے بہت محبت ک رتے تھے اور جہاں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دیکھتے،
لپک کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس پہنچ جاتے تھے۔
ہمارے یہاں خدا کے فضل سے ایسے بزرگ
بھی موجود ہیں جو بظاہر اتباع سنت کا بہت زیادہ اہتمام کرتے ہیں لیکن اُن میں ایسے
اصحاب بہت کم ہیں جن کو اپنے گھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آ لہ سلم کے مزاج
اور طبیعت کے خلاف کوئی واقعہ پیش نہ آتا ہو۔ جو اپنی نیکوکاری پر مغرور ہو کر کسی
دوسرے کو حقیر نہ سمجھتے ہوں۔ یہی وہ اعمال ہیں، وہ افعال ہیں جن کو دیکھ کر ہماری
نئی نسل مذہب سے بیزار ہو گئی ہے۔
نورِ نبوت
’’خدا اس جہنم کا مالک ہے جس میں آگ
کے سمندر کھول رہے ہیں۔ جہاں سانپوں، اژدھوں اور بچھوئوں کا بسیرا ہے۔ اس گرم تپتی
آتش فشاں میں غذا تھوہر ہے۔ آنتوں اور شریانوں کی سیرابی کے لئے جو مشروب ہے وہ پیپ
ہے۔ اے لوگو! خدا سے ڈرو۔ خدا تمہیں ایسی سزا دے گا کہ اس سزا کے تصور سے جسم پانی
اور ہڈیاں راکھ بن جائیں گی‘‘……یہ وہ الفاظ ہیں جو ہمارے کانوں میں پگھلتے ہوئے سیسہ
کی طرح اُنڈیلے جاتے ہیں۔
ہم ایسے خدا کا ذکر کیوں کرتے ہیں، انسان
جسے خوفناک ہستی، ڈرائونی ذات سمجھ کر رات دن ڈرتا رہے، لرزتا رہے جسم کا ہر عضو کانپتا
رہے؟…… یہ کون نہیں جانتا کہ ڈر اور خوف دوری اور جدائی کا اکسیری نسخہ ہے۔ ہمیں بچوں
کو ڈرانے سے پرہیز کرنا چاہئے کیونکہ ابتدائی عمر کا یہ ڈر ساری زندگی پر محیط ہو جاتا
ہے۔ اگر تمہیں یقین ہو جائے کہ تمہارا باپ ایک خوفناک ہستی ہے اور وہ تمہارا وجود جلا
کر خاکستر کر دے گا تو کیا تم اس کے قریب جائو گے؟……جبکہ رسول اللہ صلی اللہ و سلم
کا فرمان ہے:
’’اللہ
تعالیٰ ستر مائوں سے زیادہ محبت کرتا ہے‘‘……
خواجہ شمس الدین عظیمی
زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ
ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور
مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی
اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان
کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو
اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں
تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ
باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب
سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور
لازوال عیش ہے۔