Topics
نوع انسانی کی تاریخہمیں ببانگ دُہل
بتا رہی ہے کہ زمین پر وہی قومیں حکمت اور دانشوری سے سرفراز کی گئی ہیں جو اللہ
کی پھیلائی ہوئی نشانیوں میں غور کرتی ہیں۔ دنیا کی بادشاہت کا سہرا انہی افراد کے
سر پر سجتا ہے جو اللہ کی دی ہوئی عقل و فہم کو استعمال کرتے ہیں۔ کیا ہم نے کبھی
یہ سوچا ہے کہ اگر زمین کے پیٹ میں جاری و ساری چشمے سوکھ جائیں تو کون ہے جو
انہیں دوبارہ جاری کر سکتا ہے۔
٭٭٭٭٭
جب اللہ! اپنے کسی بندے سے محبت کرتا
ہے تو حضرت جبرائیل علیہ السلام کو بلا کر کہتا ہے:
میں
فلاں بندے سے محبت کرتا ہوں۔ تم بھی اس سے محبت کرو۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام اس
سے محبت کرنے لگتے ہیں اور عالم آسمان میں اعلان کرتے ہیں کہ خدا اپنے فلاں بندے
سے محبت کرتا ہے۔ تم بھی اس سے محبت کرو۔ تو آسمان والے بھی اس سے محبت کرنے لگتے
ہیں۔ پھر اس بندے کے لئے زمین والوں کے دل میں قبولیت اور عقیدت پیدا کر دی جاتی
ہے۔
٭٭٭٭٭
آئیے!
ہم دیکھیں کہ ہماری تصویر کیسی ہے؟
سب
کاموں سے فارغ ہونے کے بعد رات کو سونے سے پہلے قد آدم آئینہ کے سامنے کھڑے ہو
جایئے۔ چند منٹ آنکھیں بند کر کے یہ تصور کیجئے کہ میری زندگی کے پورے اعمال کا
ریکارڈ میرے اندر موجود ہے۔ اور میں اس ریکارڈ یا اپنے اندر موجود فلم کو دیکھ رہا
ہوں۔ آنکھیں کھول لیجئے اور آئینہ کے اوپر بھرپور نظر ڈالیے۔ اگر آپ کا چہرہ
روشن ہے، چہرہ پُرنور ہے، معصومیت ہے اور چہرے کے خدوخال میں مسکراہٹ کی لہریں دور
کر رہی ہیں تو آپ بلاشبہ نیکی کی تصویر ہیں۔ اور اگر چہرہ سوگوار ہے خشک ہے، چہرے
پر نفرت و حقارت کے جذبات موجود ہیں، کبر و نخوت کے آثار ہیں۔ اور آپ کا چہرہ
خود آپ کو برا لگتا ہے تو آپ برائی کی تصویر ہیں۔
٭٭٭٭٭
آج
کا ہمارا دور بلاشبہ دولت پرستی کا دور ہے۔ کون کہہ سکتا ہے کہ دولت پرستی اور بت
پرستی دو الگ الگ طرز عمل ہیں۔ پتھروں کو پوجنا یا سونے کو پوجنا ایک ہی بات ہے۔
بت بھی اللہ کی مخلوق پتھروں اور مٹی سے تخلیق کیے جاتے ہیں اور سونا چاندی بھی
مٹی کی بد کی ہوئی ایک شکل کا نام ہے۔ سونے چاندی اور جواہرات کی محبت نے قوم کو
اس حد تک اندھا کر دیا ہے کہ شرافت اور خاندان کا معیار ہی دولت بن گیا ہے۔ ہوس زر
کا عالم یہ ہے کہ ہماری تمام انسانی قدریں پامال ہو چکی ہیں۔ خاندانی اخلاق، اسلاف
کی نجابت، قومی روایات اب ملبہ کا ڈھیر بن گئی ہیں۔ موت کے بعد زندگی سے یقین اٹھ
گیا ہے۔ ساری قوم بابرؔ بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست کی تفسیر بن گئی ہے۔
روحانی قدروں کو ذبح کر کے اخلاقی برائیوں کو جنم دیا جا رہا ہے۔ اللہ کے فرمان کی
کھلی خلاف ورزی کی جاری ہے۔
٭٭٭٭٭
دنیا
میں دولت سے زیادہ بے وفا کوئی چیز نہیں ہے۔ دولت نے کبھی کسی کے ساتھ وفا نہیں
کی۔ دولت ہر جائی ہے۔ دولت ایک ایسا بزدلانہ تشخص ہے کہ جو دولت کو پوجتا ہے دولت
اس کو تباہ و برباد کر دیتی ہے لیکن جو بندہ دولت کی تحقیر کرتا ہے، سر پر رکھنے
کے بجائے دولت کو پیروں کی خاک سمجھتا ہے، دولت اس کے پیچھے دوڑتی ہے۔
٭٭٭٭٭
وعدوں
کو پورا کرو کہ وعدوں سے متعلق باز پرس کی جائے گی۔ جب ناپو تو پورا ناپو۔ پورے
اور صحیح ترازو سے تولو۔ یہ خیر ہے۔ اس کا نتیجہ اچھا ہو گا۔ کسی ایسی خبر کے
پیچھے مت چل پڑا کرو جس کے متعلق تم کو یقینی علم ھاصل نہ ہو۔ اس لئے کہ کان،
آنکھ اور دل سب کے متعلق ہم جواب طلب کریں گے۔ زمین پر اکڑ کر مت چلو کہ تم نہ تو
ہماری زمین کو پھاڑ سکتے ہو اور نہ بلندی میں پہاڑوں کے برابر ہو سکتے ہو۔
یہ
وہ حرکات ہیں جنہیں ہم سخت ناپسند کرتے ہیں۔
اور
نماز قائم کرو دن کے دونوں کناروں اور کچھ رات گئے پر، بلاشبہ عمل خیر برائیوں کو
مٹا دیتا ہے۔ یہ نصیحت ہے نصیحت حاصل کرنے والوں کے لئے۔
اللہ
تعالیٰ کے ساتھ ربط قائم ہو جانے سے انسان کا دل مطمئن ہو جاتا ہے۔ اور اس کے اوپر
سکون کی بارش برستی رہتی ہے۔ روحانیت میں قیام صلوٰۃ کا ترجمہ ربط قائم کرنا ہے
یعنی اپنے اللہ سے ہر حال اور ہر حرکت میں تعلق اور ربط قائم رکھا جائے۔ نماز کے
ذریعے خدا سے قربت حاصل کیجئے۔ بندہ اپنے رب سے سب سے زیادہ قریب اس وقت ہوتا ہے
جب وہ اس کے حضور سجدہ کرتا ہے۔
اگر
کوئی بات سمجھاتے وقت بحث و مباحثہ کا پہلو نکل آئے تو آواز میں کرختگی نہ آنے
دیں۔ تنقید ضروری ہو جائے تو یہ خیال رکھیں کہ تنقید تعمیری ہو، دلسوزی اور اخلاق
کی آئینہ دار ہو، سمجھانے کا انداز ایسا دلنشین ہو کہ مخاطب میں ضد، نفرت، تعصب
اور جاہلیت کے جذبات میں اشتعال پیدا نہ ہو۔ اور اگر مخالف کی طرف سے ضد اور ہٹ دھرمی
کا اظہار ہونے لگے تو فوراً اپنی زبان بند کر لیجئے کہ اس وقت یہی اس کے حق میں
خیر ہے۔
٭٭٭٭٭
قرآن
کریم کو اس عزم، اس ولولہ اور اس ہمت کے ساتھ پڑھیے کہ اس کی نورانی کرنوں سے ہمیں
اپنی زندگی سنوارنی ہے۔ قرآن آئینے کی طرح آپ کے اندر ہر ہر داغ اور ہر دھبہ
نمایاں کر کے پیش کرتا ہے۔ قرآن ایک ایسی انسائیکلوپیڈیا ہے جس میں ہر چھوٹی سے
چھوٹی اور بڑی سے بڑی بات وضاحت کے ساتھ بیان کر دی گئی ہے۔ اب یہ آپ کا کام ہے
کہ آپ قرآن پاک میں بیان کردہ نعمتوں سے کتنا فائدہ حاصل کرتے ہیں۔
اللہ
تعالیٰ فرماتے ہیں:
کتاب
جو ہم نے آپ کی طرف بھیجی برکت والی ہے تا کہ وہ اس میں غور و فکر کریں اور عقل
والے اس سے نصیحت حاصل کریں۔
٭٭٭٭٭
اور
آپ کے رب نے فیصلہ فرما دیا ہے کہ خدا کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو اور والدین کے
ساتھ نیک سلوک کرو۔ ان تمام باتوں کے پیش نظر والدین کے آگے فرمانبرداری، احترام
اور محبت کو ہمیشہ ملحوظ رکھئے اور کوئی ایسی بات نہ ہونے دیجئے جو انہیں ناگوار
گزرے یا جس سے ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچے۔
ایک
بار بیگم عثمان ابن فطعون سے حضرت عائشہؓ کی ملاقات ہوئی تو آپؓ نے دیکھا کہ بیگم
عثمان سادے کپڑوں میں ہیں اور کوئی بنائو سنگھار بھی نہیں کیا ہے۔ تو حضرت عائشہؓ
کو بڑا تعجب ہوا اور ان سے پوچھا۔ بی بی! کیا عثمان کہیں سفر پر گئے ہوئے ہیں؟
حضرت عائشہؓ کے اس تعجب سے اندازہ ہوتا ہے کہ سہاگنوں کا اپنے شوہر کے لئے بنائو
سنگھار کرنا کیسا پسندیدہ عمل ہے۔
٭٭٭٭٭
جس
طرح رات اور دن طلوع اور غروب ہوتے رہتے ہیں اسی طرح اقتدار بھی اقوام عالم میں رد
و بدل ہوتا رہتا ہے۔ بابل اور مصر کی تہذیبیں اپنی پوری آن شان اور شان و شوکت کے
باوجود زمین دوز ہو گئیں۔ تہذیب کا آفتاب کبھی مشرق پر چمکتا تھا پھر یونان علم و
آگہی کا مرکز بن گیا لیکن یونان بھی چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم ہو کر ختم ہو
گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے سلطنت روم وجود میں آ گئی۔ آفتاب تہذیب پوری طرح مغرب پر
چمکنے لگا۔ کچھ عرصے بعد ایران نے زندگی کی ایک نئی انگڑائی لی یہاں تک کہ ریگستان
عرب سے علم و عرفان کے بادل اٹھے اور علم و عرفان کے بادلوں سے مشرق و مغرب دونوں
ہی سیراب ہو گئے۔ اور پھر جب مسلم قوم نے اپنا تشخص کھو دیا، اپنا کردار گھنائونا
بنا لیا تو علم و آگہی کا سورج مغرب کی طرف لوٹ گیا۔ آج پست(غیر مسلم) اقوام
اعلیٰ ہیں اور اعلیٰ اقوام(مسلم) سابقہ پست اقوام
کے سامنے ذلت و رسوائی کی تصویر بنی ہوئی ہیں۔ قوم کے افلاس کا یہ عالم ہے
کہ علم و ہنر میں ہی نہیں اپنی معاش میں بھی خود کفیل نہیں ہے۔ وہ قوم جو تسخیری
فارمولے نافذ کرتی تھی، ایجادات کرتی تھی، آج معاشی اعتبار سے مفلوک الحال ہے کہ
اس کی سوچ اور فکر پر بھی پردے پڑ گئے ہیں۔
٭٭٭٭٭
ہر
آدمی یہ جانتا اور سمجھتا ہے کہ خاندان کے افراد جب تک مل جل کر یکجائی جذبات کے
ساتھ رہتے ہیں ان کی ایک حیثیت ہوتی ہے۔ ان کی اپنی ایک آواز ہوتی ہے۔ ان کی ایک
اجتماعی قوت ہوتی ہے۔ جھاڑو کے تنکے الگ الگ کر دیئے جائیں اور ہر تنکے سے الگ الگ
ضرب لگائی جائے، چاہے اس کی تعداد ایک ہزار تک ہو چوٹ نہیں لگے گی اور نہ اس عمل
سے کوئی مفید نتیجہ مرتب ہو گا لیکن ان ایک ہزار تنکوں کو ایک جگہ باندھ کر ضرب
لگائی جائے تو جسم پر نیل پڑ جائے گا۔
٭٭٭٭٭
قدرت
چاہتی ہے کہ ہم قدرت کی نشانیوں پر غور کر کے نیکو کاروں کی زندگی بسر کریں۔ اس
لئے کہ نیکو کاری قدرت کی حسین صنعت ہے۔ خدا چاہتا ہے کہ اس کی صنعت میں بدنمائی
نہ ہو۔
سورہ
یونس میں ارشاد ہے کہ ہم نیکو کاروں کو ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیں گے بلکہ
کچھ زیادہ ہی عطا کریں گے۔ ان کے چہروں کو ذلت اور مسکنت کی سیاہی سے محفوظ رکھیں
گے اور جنت میں انہیں دائمی سکون حاصل ہو گا۔
٭٭٭٭٭
قرآن
کہتا ہے۔ زمین و آسمان میں اہل ایمان کے لئے حقائق و بصائر موجود ہیں یعنی اہل
ایمان کی خصوصیت یہ ہے کہ زمین و آسمان کی حقیقتوں اور زمین و آسمان کے اندر
موجود تخلیقات کے فارمولوں پر ان کی گہری نظر ہوتی ہے۔ ان کے اندر مشاہدے کی طاقت
کہکشانی نظاموں کی نقاب کشائی کرتی رہتی ہے۔
(خواجہ
شمس الدین عظیمی کی کتاب ’’تجلیات‘‘ سے چند اقتباس)
خواجہ شمس الدین عظیمی
زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ
ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور
مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی
اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان
کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو
اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں
تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ
باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب
سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور
لازوال عیش ہے۔