Topics

جولائی 2003؁-اعمال کا عکس

              اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:

              ’’ہم بدکاروں کو ان کے اعمال کے مطابق سزا دیں گے۔ ان کے چہروں پر ذلّت برسائیں گے۔ انہیں ہماری قاہرانہ گرفت سے چھڑانے والا کوئی نہ ہو گا۔ ان کے منہ اس قدر سیاہ ہو جائیں گے گویا شبِ تاریک کا کوئی ٹکڑا کاٹ کر ان کے رُخ پر چپکا دیا گیا ہو۔ یہ لوگ سدا جہنم میں رہیں گے‘‘۔  (سورۂ یونس)

              انسان کے اچھے اور بُرے اعمال کا عکس چہرہ میں منتقل ہوتا رہتا ہے اور جو بندہ جس قسم کے کام کرتا ہے اس مناسبت سے اس کے چہرے پر تاثرات مرقوم ہوتے رہتے ہیں۔ قانونِ فطرت یہ ہے کہ انسان کے ہر عمل کی فلم بنتی رہتی ہے اور ہر آدمی کی اپنی اس فلم کے لئے اس کا اپنا چہرہ اسکرین ہے۔ کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ ایک پریشان حال، مصیبت کے مارے اور غم کی چکی میں پسنے والے آدمی کے چہرے پر پریشانی اور غم و آلام کے پورے پورے تاثرات موجود ہوتے ہیں اور یقینا اس دنیا میں پاکیزہ نفس حضرات بھی موجود ہیں کہ ان کے وجود سے خوشی، مسرت اور سکونِ قلب کی لہریں واضح طور پر محسوس کی جا سکتی ہیں۔

 

نورِ نبوت

              حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے:

              ’’تم مسلمانوں کو باہم رحم دلی، الفت و محبت اور آپس میں تکلیف و راحت کے جذبات میں ایسا پائو گے جیسے ایک جسم کہ اگر اس کا ایک عضو بیمار پڑ جائے تو سارا جسم بیماری اور بے چینی میں اس عضو کا شریک بن جاتا ہے‘‘۔

              حق و صداقت کے پیکر، پیارے نبی، معلم اخلاق حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر مثبت طرز فکر اختیار کیجئے اور دوستوں سے خوش دلی، نرم خوئی اور مسرت و اخلاص سے ملئے، توجہ اور کھلے دل سے اُن کا استقبال کیجئے۔ ملاقات کے وقت اور دوستوں کے معاملات میں لاپرواہی، بے نیازی، سپاٹ اور خشک لہجے میں گفتگو کرنا، چہرہ اور پیشانی پر بظاہر نظر نہ آنے والا منافقت کا عکس ایسی بیماریاں ہیں جو دلوں میں کدورت کو جنم دیتی ہیں اور جن سے دلوں میں نفرت پیدا ہوتی ہے۔ حزن و ملال اور مُردہ دلی کے کلمات ہرگز زبان پر نہ لایئے۔ ایسا انداز اختیار کیجئے کہ آپ کے ناخوش اور پژمردہ دل دوست بھی اپنے اندر خوشی اور پُرمسرت زندگی کی لہریں محسوس کریں۔

Topics


نورنبوت نور الٰہی-V1

خواجہ شمس الدین عظیمی

زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور لازوال عیش ہے۔