Topics

جولائی1997؁ء۔روحانی علم

’’کیا یہ لوگ نہیں جانتے کہ جو کچھ چھپاتے ہیں اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں، خدا کو معلوم ہے۔‘‘

                (سورہ بقرہ۔ ۶تا۱۶)

                روحانی نقطہ نظر سے اللہ رب العزت کے ارشادات کی روشنی ہمیں دکھاتی ہے کہ انسان ناقابل تذکرہ شئے تھا۔ اللہ نے اس کے اندر اپنی روح پھونک دی۔ روح پھونکنے کے بعد اس کے اندر چھ حواس بن گئے۔ چھ حواس یہ ہیں ۱۔سننا  ۲۔ دیکھنا  ۳۔ سونگھنا  ۴۔ چھونا یا محسوس کرنا  ۵۔ چکھنا  ۶۔ ان پانچ حواس کے ادراک کا علم ہونا۔

                روحانی علم کی بنیاد پر نوع انسانی کا ہر فرد روشنیوں سے بنا ہوا ہے۔ اور روشنی کے اوپر نور کی حکمرانی ہے۔ روشنی اور نور چھ دائروں یا چھ نقطوں نفس، قلب، روح، سِر، خفی، اخفیٰ میں تقسیم ہو رہی ہے۔ ان چھ روشن دائروں کے تین یونٹ ہیں۔ یونٹ روح حیوانی، یونٹ روح انسانی، یونٹ روح اعظم۔

                لوح محفوظ کے قانون کے مطابق نور کی لہریں اطلاع بنتی رہتی ہیں اور یہی اطلاعات نزول کر کے روشنی بن جاتی ہے۔ جہاں نور پہلے مرحلے میں روشنی بنا ہے اس کو ’’واہمہ‘‘ کہتے ہیں۔ دوسرے مرحلے میں خیال، تیسرے مرحلے میں تصور، چوتھے مرحلے میں احساس کا روپ دھار لیتا ہے۔

                واہمہ کا سورس sourceاخفیٰ ہے۔ خیال کا سورس سِر ہے۔ تصور کا سورس قلب ہے اور احساس یا مادی وجود دیکھنے کا سورس نفس ہے۔ جب کوئی اطلاع آسمان سے نزول کرتی ہے تو اس کے اندر تخریب نہیں ہوتی۔ اور جب یہ اطلاع وارد ہو کر زینہ بہ زینہ نفس میں داخل ہوتی ہے تو اس میں تعمیر یا تخریب ہوتی ہے۔ اطلاع میں تعمیر یا تخریب کے معنی پہنانے کے لئے انسان کو اختیار دیا گیا ہے۔ ضمیر (قلب) بار باریہ بتاتا رہتا ہے کہ تخریب غلط طرز عمل ہے اور تعمیر صحیح طرز عمل ہے۔ لیکن جب کوئی انسان اپنے ارادے اور اختیار سے اطلاع کو متواتر تخریب میں بدلتا رہتا ہے تو تخریب کی تاریکی نفس کی لطیف روشنی کو کثیف کر دیتی ہے اور جب یہ سلسلہ طویل ہو جاتا ہے اور کثافت بڑھ جاتی ہے تو کثافت دھواں یا غبار بن کر قلب کو ڈھانپ لیتی ہے۔ اس بلائے ناگہانی سے خود کو محفوظ رکھنے کے لئے ضمیر آدم زاد برادری کو بھلائی کی طرف بڑی شد و مد کے ساتھ متوجہ کرتا ہے۔ لیکن ایک وقت ایسا آ جاتا ہے کہ آدم زاد تعمیری اطلاعات کو قبول ہی نہیں کرتا اور اس کیا اندر سے یقین کا پیٹرن ٹوٹ جاتا ہے۔

                اللہ کی بادشاہی میں رہتے ہوئے بندہ مادر پدر آزاد ہو کر اپنی بادشاہی کے گُن گانے لگتا ہے۔ ضمیر صراط مستقیم پر چلنے کی تاکید کرتا ہے مگر وہ جب ہر طرف کثافت دیکھتا ہے تو خاموش ہو جاتا ہے۔ اور صراط مستقیم کی روشنی انسان کی راہنمائی نہیں کرتی۔

                یہی وہ حال ہے جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے بالخصوص یہ آیت نازل کی ہے۔

                ’’جو لوگ کافر ہیں۔ انہیں تم نصیحت کرو یا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے۔ وہ ایمان نہیں لائیں گے۔‘‘

                ’’خدا نے ان کے دلوں پر اور کانوں پر مہر لگادی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا ہے اور ان کے لئے عذاب الیم ہے۔‘‘

                خیر و شر اور تعمیر و تخریب دونوں کا تعلق اس بات سے ہے کہ آدم زاد کو خالق کائنات نے اطلاع میں معنیٰ پہنانے کا جو اختیار دیا ہے اسے آدم زاد کس طرح استعمال کرتا ہے۔

                ’’تجھ کو جو نیکی پہنچتی ہے وہ خدا کی طرف سے ہے اور جو مصیبت پہنچتی ہے وہ خود تیری طرف سے ہے۔ کیا جب تم کو کوئی مصیبت پہنچی جس کی دوگنی تم ان کو پہنچا چکے ہو۔تو تم نے کہا یہ کہاں سے آئی؟ کہہ دے کہ خود تمہاری طرف سے ہے۔ خدا ہر بات پر قدرت رکھتا ہے۔‘‘

                روحانی علوم جیسا کہ سب کو معلوم ہے مشاہداتی علوم ہیں۔ علوم کی دو قسمیں نوع انسانی کو ورثہ میں ملی ہیں۔ ایک قسم روحانی علوم (علم حضوری) دوسری قسم مفروضہ علم (علم حصولی)۔ علم حضوری سے مستفیض حضرات کے مشاہدات میں یہ بات آ جاتی ہے کہ کائنات اطلاعات Informationsکے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

                کائناتی اطلاع میں معنی نہیں ہوتے وہ سادہ Blankہوتی ہے۔ مثلاً ہمیں یہ اطلاع ملتی ہے کہ بھوک کو رفع کرنے کے لئے غذا کا استعمال ضروری ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی اطلاع دی گئی ہے کہ حق غصب کر کے بھوک رفع کرنا بُرائی ہے۔ اور محنت مزدوری کر کے بھوک رفع کرنا اچھائی ہے۔ اپنا مال خرچ کرنا اچھی بات ہے اور کسی کا مال چوری کر کے خرچ کرنا بری بات ہے۔ خرچ کرنا دونوں حالتوں میں مشترک ہے لیکن خرچ کی نوعیت الگ الگ ہے۔ خیر و شر کا فلسفہ اس نوعیت کے اوپر قائم ہے کہ آگ بجائے خود نہ خیر ہے کہ شر……اگر اس سے اپنے لئے اور نوع انسانی کے لئے اچھا اور تعمیری کام لیا جائے تو خیر ہے اور اس سے اگر برائی اور تخریبی کام لیا جائے تو شر ہے۔

                جب ہم یہ مان لیتے ہیں اور جس کو ماننا عقلی استدلال اور لاشعوری اعتبار سے ثابت ہے کہ کوئی عمل بذات خود خیر و شر نہیں ہے تو اس کے علاوہ کوئی دوسرا مفہوم نہیں نکلتا کہ خیر و شر دراصل معنی پہنانے سے عمل میں آتا ہے۔

Topics


نورنبوت نور الٰہی-V1

خواجہ شمس الدین عظیمی

زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور لازوال عیش ہے۔