Topics

نومبر 1986؁ء۔دوستی کا انتخاب

قیامت میں خدا فرمائے گا کہ وہ لوگ کہاں ہیں جو صرف میرے لئے لوگوں سے محبت کیا کرتے تھے۔ آج میں ان کو اپنے سائے میں جگہ دوں گا۔ قیامت کے دن ایسے لوگوں کو جو قابل رشک، شان و شوکت حاصل ہو گی ان کے لئے حضور اکرمﷺ کا ارشاد ہے:

                ’’خدا کے بندوں میں کچھ ایسے ہیں جو نبی اور شہید تو نہیں لیکن قیامت کے روز خدا ان کو ایسے مرتبوں پر سرفراز فرمائے گا کہ انبیاء اور شہداء بھی ان کے مرتبوں پر رشک کریں گے۔‘‘

                صحابہ نے پوچھا۔ وہ کون خوش نصیب ہوں گے یا رسول اللہﷺ؟

                آپﷺ نے فرمایا:

                ’’یہ وہ لوگ ہیں جو آپس میں ایک دوسرے سے محض خدا کے لئے محبت کرتے تھے، نہ یہ آپس میں رشتہ دار تھے اور نہ ان کے درمیان کوئی لین دین تھا۔ خدا کی قسم! قیامت کے روز ان کے چہرے نور سے جگمگا رہے ہوں گے جب سارے لوگ خوف سے کانپ رہے ہوں گے تو انہیں کوئی خوف نہ ہو گا اور جب سارے لوگ غم میں مبتلا ہوں گے اس وقت انہیں قطعاً کوئی غم نہیں ہو گا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے قرآن پاک کی یہ آیت تلاوت فرمائی۔

                سنو! اللہ کے چاہنے والوں کے لئے نہ کسی بات کا خوف ہو گا اور نہ کسی قسم کا غم!‘‘

                دوستی کے انتخاب میں اس بات کا خیال رکھا جائے کہ جن لوگوں سے آپ قلبی تعلق بڑھا رہے ہیں ان کی اخلاقی حالت کیسی ہے۔ دوستوں کی صحبت میں بیٹھ کر وہی رجحانات اور خیالات پیدا ہوتے ہیں جو دوستوں میں کام کر رہے ہیں لہٰذا قلبی لگائو اسی سے بڑھانا چاہئے کہ جس کا ذوق، افکار و خیالات اور دوڑ دھوپ اسوۂ حسنہ کے مطابق ہو۔

                اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

                ’’مومن مرد اور مومن عورتیں آپس میں ایک دوسرے کے دوست اور معاون ہیں۔‘‘

                دوستوں پر اعتماد کیجئے۔ انہیں افسردہ نہ کیجئے۔ ان کے درمیان ہشاش بشاش رہیئے۔ دوستی کی بنیاد خلوص، محبت اور رضائے الٰہی پر ہونی چاہئے نہ کہ ذاتی اغراض پر ایسا رویہ اپنایئے کہ دوست احباب آپ کے پاس بیٹھ کر مسرت، زندگی اور کشش محسوس کریں۔

                حضور اکرمﷺ نے دوستوں کی ملاقات کا ایمان افروز نقشہ کھینچتے ہوئے فرمایا:

                ’’ایک شخص اپنے دوست سے جو کسی دوسری بستی میں تھا ملاقات کے لئے چلا۔ خدا نے اس کے راستے پر ایک فرشتے کو بٹھا دیا۔ فرشتے نے اس سے پوچھا۔ کہاں کا ارادہ ہے؟ اس نے جواب دیا۔ اس گائوں میں اپنے بھائی سے ملاقات کے لئے جا رہا ہوں۔ فرشتے نے کہا۔ کیا تمہارا اس پر کوئی حق نعمت ہے جو وصول کرنے جا رہے ہو؟ اس نے کہا۔ نہیں! بس صرف اس غرض سے اس کے پاس جا رہا ہوں کہ میں اس سے خدا کی خاطر محبت کرتا ہوں۔ فرشتے نے کہا۔ تو سنو! مجھے خدا نے تمہارے پاس بھیجا ہے اور یہ بشارت دی ہے کہ وہ بھی تجھ سے ایسی ہی محبت رکھتا ہے جیسی تو اس کی خاطر اپنے دوست سے رکھتا ہے۔‘‘

                حضور کا ایک اور ارشاد ہے کہ قیامت کے روز جب عرش الٰہی کے سوا کہیں کوئی سایہ نہ ہو گا، سات قسم کے افراد عرش الٰہی کے سائے میں ہوں گے۔ ان میں ایک قسم کے افراد وہ دو آدمی ہوں گے جو محض خدا کے لئے ایک دوسرے کے دوست ہوں گے۔ خدا کی محبت نے انہیں باہم جوڑا ہو گا اور اسی بنیاد پر وہ ایک دوسرے سے جدا ہوئے ہوں گے یعنی ان کی دوستی خدا کی خاطر ہو گی اور زندگی بھر وہ اس دوستی کو قائم رکھنے اور نبھانے کی کوشش کریں گے اور جب ان میں سے کوئی ایک دوسرے سے جدا ہو کر دنیا سے رخصت ہو رہا ہو گا تو اسی حال میں کہ ان کی یہ دوستی قائم ہو گی اور اس دوستی کی حالت میں وہ ایک دوسرے سے علیحدہ ہوں گے۔

                ایک شب اللہ تعالیٰ نے حضور اکرمﷺ سے فرمایا۔ مانگئے۔

                آپﷺ نے دعا کی:

                ’’خدایا! میں تجھ سے نیک کاموں کی توفیق چاہتا ہوں اور برے کاموں سے بچنے کی قوت چاہتا ہوں اور مسکینوں کی محبت چاہتا ہوں اور یہ کہ تو میری مغفرت فرما دے اور مجھ پر رحم فرمائے اور جب تو کسی قوم کو عذاب میں مبتلا کرنا چاہے تو مجھے اس حال میں اٹھا لے کہ میں اس سے محفوظ رہوں اور میں تجھ سے تیری محبت کا سوال کرتا ہوں اور اس شخص کی محبت کا سوال کرتا ہوں جو تجھ سے محبت کرتا ہے اور اس عمل کی توفیق چاہتا ہوں جو تیرے قرب کا ذریعہ ہو۔‘‘

Topics


نورنبوت نور الٰہی-V1

خواجہ شمس الدین عظیمی

زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور لازوال عیش ہے۔