Topics

دسمبر2000؁ء

’’اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کئے گئے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تا کہ تم متقی بنو۔ (روزوں کے دن) گنتی کے چند روز ہیں تو جو شخص تم میں سے بیمار ہو یا سفر میں ہو تو دوسرے دنوں میں روزوں کا شمار پورا کر لے اور جو لوگ روزہ رکھنے کی طاقت رکھیں (لیکن رکھیں نہیں) وہ روزے کے بدلے مسکین کو کھانا کھلا دیں۔ اور جو کوئی شوق سے نیکی کرے تو اس کے حق میں زیادہ اچھا ہے اور اگر سمجھو تو روزہ رکھنا ہی تمہارے حق میں بہتر ہے۔ رمضان کا مہینہ جس میں نازل ہوا قرآن جو لوگوں کا رہنما ہے اور(جس میں) ہدایت کی کھلی نشانیاں ہیں اور (حق و باطل) الگ الگ کرنے والا ہے۔ تو جو کوئی تم میں سے اس مہینے میں موجود ہو اسے چاہئے کہ پورے مہینے کے روزے رکھے اور جو بیمار ہو یا سفر میں ہو تو دوسرے دنوں میں ان کا شمار پورا کر لے۔ اللہ آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا اور اس لئے کہ تم روزوں کا شمار پورا کر لو اور اس احسان کے بدلے کہ اللہ نے تم کو ہدایت بخشی ہے اور تم تکبر نہ کرو اور اس کا شکر کرو۔‘‘ (سورہ البقرہ)

                انسائیکلوپیڈیا آف ریلیجن میں روزہ کی تعریف اس طرح آئی ہے:

                ’’روزہ غذا سے مکمل یا جزوی پرہیز کا ایک ایسا آفاقی عمل ہے جو مشرق و مغرب کی تقریباً سبھی تہذیبوں میں پایا جاتا ہے۔‘‘

                اسی طرح انسائیکلوپیڈیا برٹائیکا میں ہے:

                ’’خاص مقصد کے لئے یا اہم مقدس اوقات کے دوران یا ان سے قبل روزہ رکھنا دنیا کے بڑے مذاہب کا خاصہ ہے۔‘‘

                رمضان المبارک مسلمانوں کی روحانی اور معاشرتی اصلاح کا تربیتی پروگرام ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق اس مہینہ کا حاصل تقویٰ ہے اور متقی پر کئی معاشرتی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ اس مہینہ میں غریبوں، بیوائوں، یتیموں اور ناداروں کے ساتھ ہر قسم کا تعاون کیجئے۔ فیاضی اور سخاوت کے پیکر، اللہ کے رسولﷺ رمضان میں بہت زیادہ سخاوت فرماتے تھے۔ روزہ کی حالت میں ذہن صرف کھانے پینے کی چیزوں میں نہ لگا ہو۔ دیکھا گیا ہے کہ بعض لوگوں کو صبح ہی سے یہ فکر ستانے لگتی ہے کہ افطار میں کیا کھانا ہے۔ دوپہر کے بعد سے ہی کھانے کے انتظام میں لگ جاتے ہیں۔ یاد رکھئے روزہ کا مقصد اللہ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنا ہے۔ افطار کے وقت محلہ میں کھانا تقسیم کیجئے بعض مستحق سفید پوش لوگ اپنی مشکل بیان نہیں کر سکتے۔ اس ذریعہ سے ان کی شرافت کا بھرم بھی قائم رہتا ہے اور عزت نفس بھی مجروح نہیں ہوتی۔ ضرورت مندوں کی امداد پوشیدہ طریقے سے کریں تا کہ آپ کے اندر بڑائی یا نیکی کا غرور پیدا نہ ہو۔

 

نورِ نبوت

                ’’تاجر مدینہ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

                ’’روزہ میرے لئے ہے اور روزہ کی جزا میں ہوں۔‘‘

                رمضان جس میں نازل ہوا قرآن ایک پُرعظمت اور فضیلت و حکمت سے معمور مہینہ ہے۔ جو انسانی شعور کو مصفی اور صیقل بنا دیتا ہے۔ محض اللہ کے لئے بھوکے پیاسے رہنے سے آدمی کی روح آسمانوں کی وسعتوں میں پرواز کر کے عرش کی رفعتوں کو چھو لیتی ہے۔

                شعبان کی آخری تاریخ کو حضور اکرم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:

                ’’لوگو! تم پر ایک بہت عظمت و برکت کا مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں ایک رات ایک ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے۔‘‘

                قرآن پاک نے اس رات کا نام لیلتہ القدر رکھا ہے۔ اللہ کے فرمان کے مطابق لیلتہ القدر ایک ہزار مہینوں کے دن اور رات کے حواس سے افضل ہے۔ اس کو سمجھنے کے لئے ہم اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ رات کے حواس کی رفتار اس رات میں ساٹھ ہزار گنا بڑھ جاتی ہے کیونکہ ایک ہزار مہینوں میں تیس ہزار دن اور تیس ہزار راتیں ہوتی ہیں۔

                جب آپ اپنا زیادہ سے زیادہ وقت عبادت میں گزارتے ہیں۔ اس وقت آپ کاروبار کو بھی ترک کر دیتے ہیں۔ معاش بھی آپ کے ذہن میں نہیں ہوتا۔ صرف اور صرف اللہ کی خوشنودی کے لئے صاف ستھری زندگی، صحیح نظام الاوقات کی حدود میں گزارتے ہیں تو کم بولنے، کم سونے، کم کھانے اور کم سوچنے سے آپ کی فکر مجلی ہو جاتی ہے۔ ایک روشنی آپ کے دماغ میں دل اور سینہ میں پیدا ہو جاتی ہے۔ یہ روشنی آپ کی فکر میں راہنمائی کرتی ہے۔ باطنی حواس کو پردہ سے باہر لے آتی ہے اور ان میں تیزی پیدا کرتی ہے۔ یہی روشنی ہے جس کے ذریعے آپ بہت سی باتیں جو مستقبل میں ہونے والی ہیں، دیکھ لیتے ہیں، کانوں سے سن لیتے ہیں اور دماغ سے ان چیزوں کو سمجھنے کے لئے غلبہ حاصل کر لیتے ہیں۔

                رسول اللہﷺ رمضان کے مہینے میں زیادہ صلوٰۃ قائم کرتے۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام آپﷺ کو قرآن پاک سنایا کرتے اور آپﷺ حضرت جبرائیل علیہ السلام کو قرآن سنایا کرتے۔ رمضان کے آخری عشرے میں مسجد نبوی کے ایک حصہ میں معتکف ہو جاتے اور طاق راتوں میں طویل شب بیداری فرماتے۔

Topics


نورنبوت نور الٰہی-V1

خواجہ شمس الدین عظیمی

زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور لازوال عیش ہے۔