Topics
دیکھ!
حضرت
عزرائیل نے دیکھا کہ!
ایک
سمندری جہاز ہے۔ وہ ڈوب رہا ہے۔ حکم خداوندی ہوا۔ تجھے اجازت ہے مگر یہ نوزائیدہ
بچہ ضائع نہ ہو۔ اسے تختہ پر ڈال کر سمندر کی لہروں کے سپرد کر دے۔ عزرائیل نے عرض
کیا۔
خدایا!
یہ بچے کیسے زندہ رہے گا۔ خدا نے کہا۔ سمندر کی منہ زور لہریں اس کی حفاظت کریں
گی۔ جہاز اپنے مسافروں اور ساز و سامان کے ساتھ ڈوب گیا۔ سمندر نے اس طرح جہاز کو
نگل لیا کہ اس کا وجود بھی باقی نہ رہا۔ مگر لہروں نے بچہ کو سنبھال لیا۔ طوفان
تھم گیا۔ بچہ سمندر کے کنارے آ لگا۔
خدا
نے کہا۔ اے عزرائیل یہ وہی بچہ ہے جس نے ہمارے احسانات کا یہ بدلہ دیا ہے کہ خدا
بن بیٹھا۔
٭٭٭٭٭
فرعون
اور اس کے مصاحب دانشوروں نے ذاتی مفاد اور اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کے لئے
اسرائیلی قوم کو ایسے راستے پر چلنے پر مجبور کر دیا کہ وہ فرعون کی زر خرید غلام
بن گئی۔ اسرائیل کے اندر سے قومی حمیت اور غیرت ختم ہو گئی۔ اس کے سپرد ایسے کام
کیے گئے کہ جن کاموں سے مستقل طور پر قوم برین واش ہوتی رہی۔ یہ ساری کارستانی ان
حکماء اور فلاسفر کی تھی جن کا مقصد نوع انسانی پر اپنی حاکمیت قائم کرنا تھا۔ قوم
جب ذلت اور مسکنت کی انتہا کو پہنچ گئی تو اسی قوم میں سے ایک فرد خدا نے پیدا
کیا۔ اور بڑی معجزاتی بات یہ ہے کہ اس فرد کو اسفل گروہ کے سرغنہ کے گھر میں پرورش
کرا دی ۔ یہ فرد جب عظیم المرتبت موسیٰ علیہ السلام کے تشخص سے منظر عام پر آیا
تو گروہ اسفل کے دانشوروں کے قلعوں میں کہرام برپا ہو گیا۔ دونوں گروہوں کے
سرداروں نے اپنے اپنے علم سے ایک دوسرے کو شکست دینے کی جدوجہد کی۔ فرعونی گروہ کے
دانشوروں، صاحب علم جادوگروں اور بڑے بڑے فلاسفروں نے گروہ انبیاء کے ایک ممتاز
فرد موسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات کو ختم کر کے اپنا اقتدار مستحکم کرنے کے لئے
سازشیں شروع کر دیں۔ جادوگروں نے فرعون کے عظیم الشان دربار میں اپنی دانشوری کا
مظاہرہ کرنے کے لئے رسیاں اور بانس پھینک دیئے۔ پورا دربار سانپ اور اژدہوں سے بھر
گیا۔ لوگوں پر دہشت طاری ہو گئی اور عقل کے غلام فرعون کی عظمت کے اور زیادہ قائل
ہو گئے۔ گروہ انبیاء کا ممتاز فرد موسیٰ علیہ السلام ہاتھ میں عصا لئے ہوئے اپنی
جگہ کھڑا رہا۔
موسیٰ
علیہ السلام کے پیش نظر ذاتی منفعت یا ذاتی اقتدار نہیں تھا۔ وہ غلام قوم کو
آزادی سے ہمکنار کرنا چاہتا ہے۔ اس کی سوچ، انفرادی نہیں اجتماعی تھی۔
موسیٰ
علیہ السلام کے خدا نے کہا:
خوف
اور غم نہ کر ہم تیرے ساتھ ہیں۔ اپنی لاٹھی پھینک دے۔ موسیٰ علیہ السلام نے لاٹھی
زمین پر ڈال دی۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ لاٹھی ایک بڑا اژدھا بن کر دربار میں
لمبی لمبی زبانیں نکالتے ہوئے تمام اور اژدہوں کو نگل گیا۔ لیکن اسفل سوچ کے
دانشوروں نے اس شکست کو تسلیم نہیں کیا۔ اور فرعون کو اس کی عظمت یاد دلاتے رہے۔
بالآخر موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کو لے کر شہر سے باہر نکل گئے اور فرعون اپنا
لشکر لے کر ان کے تعاقب میں آندھی طوفان کی طرح چلا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا
کہ دریا میں راستے بن گئے۔ لہریں دیواریں بن گئی ہیں۔ عقل کے اندھے نے یہ بھی نہیں
سوچا کہ جس شخص کی وجہ سے دریا نے اپنی فطرت بدل دی ہے۔ وہ شخص ماورائی انسان ہے۔
عقل کے گھوڑے پر سوار، اقتدار کے نشے میں بدمست، ظلم و بربریت کا معمار دریا میں
اتر گیا۔ اور دریا میں لہروں سے بنا ہوا راستہ بند ہو گیا۔ ایسا لگا کہ دریا میں
لہروں کے کواڑ تھے۔ جو آپس میں مل گئے۔ فرعون غرق ہو گیا۔ موسیٰ علیہ السلام کو
فتح و کامرانی مل گئی۔
اللہ
کا ارشاد ہے:
اے
پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم آپ کہہ دیجئے کہ حق آیا اور باطل مٹ گیا۔ بے شک باطل
کو مٹنا ہی تھا۔
جب
سے آدم و حواء کو زمین پر پھنکا گیا ہے زمین پر دو گروہ کا وجود نوع انسانی کے
لئے مشعل راہ بنتا رہا۔ ایک گروہ نے اپنی تعلیم کی عمارت مذہب پر رکھی۔ اس گروہ نے
اچھائی اور برائی کا ہر پہلو سمجھا کر، آخرت کی زندگی کی نشاندہی کی۔ انہوں نے
بتایا جو پیدا ہوتا ہے وہ مرتا بھی ہے۔ مرنے اور پیدا ہونے کے عمل سے یہ حقیقت
منکشف ہوتی ہے کہ ہم پیدا ہونے سے پہلے بھی کہیں تھے۔ جہاں تھے وہاں جب ہمارے اوپر
موت وارد ہوئی تو زمین پر پیدا ہو گئے۔ موت نے جب ہمیں زمین پر رہنے کی مہلت نہیں
دی تو ہم کہیں اور پیدا ہو گئے۔ زمین پر سے منتقلی کا نام موت اور موت کے بعد
دوسرے عالم میں پیدا ہونے کا نام آخرت کی زندگی رکھا گیا۔ جس گروہ یا اخلاقی
معلمین کی جس جماعت نے آخرت کی دنیا سے روشناس کرایا۔ ان کو انبیاء اور معلمین
دین کہا گیا۔
دوسرا
گروہ، وہ ہے کہ جس نے اپنے فلسفہ و حکمت اور عقل و دانائی پر عمارت کھڑی کی۔ یہ
جماعت حکماء اور فلاسفر کے نام سے جانی پہچانی گئی۔ دونوں گروہ اور جماعتوں نے درس
و تعلیم کے اصول الگ الگ بنائے۔ انبیاء اور مصلحین نے اپنی تعلیمات کا ماخذ اللہ
کے علم اور اللہ کے احکامات کو قرار دیا۔ انبیاء اور مصلحین کی تعلیمات میں علت و
معلول کا سلسلہ اور عقلی موشگافیاں نہیں ہیں۔ اور نہ ہی منطق و فلسفہ کی گرہ کشائی
ہے۔ احکام اور تعلیمات کی کسوٹی صرف یہ ہے کہ یہ بات اللہ نے کہی ہے۔
دوسرے
گروہ اور فریق کے ذہن میں استدلال ہے۔ تعلیمات میں علت و معلول ہے۔ نفسیاتی بحث،
غرض و غایت کا تعین، دلیل، عقلی توجیہات، شعوری نکتہ چینی ہے۔ مگر یہ سب ہونے کے
باوجود عمل کا درجہ صفر ہے۔ اور اگر کہیں یہ درجہ صفر سے آگے بڑھا ہے تو اس عمل
کا نتیجہ مثبت کے بجائے منفی نکلا۔ دعوے نوع انسانی کی ترقی اور علمی برتری کے
ہوتے رہے۔ حاصل ہلاکت کے سوا کچھ نہیں نکلا۔ عقلی محبت اور شعوری ترقی کی بنیاد پر
ظاہر اسباب میں ترقی ہوتی رہی۔ اس ترقی کا فائدہ نوع انسانی کو نہیں پہنچا۔ عقل کی
فضیلت کے پس پردہ غرض ہو، ہوس اور لالچ، پنپتا پھولتا اور نشوونما پاتا رہا۔ عقلی
برتری کی بنیاد پر حکماء ’’خدا کی خدائی‘‘ پر بھی قدغن لگانے سے باز نہیں رہے۔ کسی
کو نمرود، کسی کو شداد اور کسی کو شہنشاہ جلال الدین اکبر بنا دیا۔
حکمائے
وقت نے موسیٰ کے مقابلے میں فرعون کو کھڑا کر دیا۔
روایت
بیان کی جاتی ہے کہ:
مصنوعی
خدا شداد نے اصلی خدا سے دعا کی کہ موت اس طرح آئے کہ اس کے انتخاب کی مجھے اجازت
دے دی جائے۔
جب
موت آئے تو میں لیٹا ہوا نہ ہوں، کھڑا ہوا نہ ہوں، بیٹھا ہوا نہ ہوں، گھر کے اندر
یا باہر نہ ہوں۔ زمین پر نہ ہو۔ غرض اس کی عقل میں موت سے بچائو کی جتنی بھی
تدبیریں تھیں وہ سب اس نے خدا سے منظور کرا لیں۔
جنت
تیار ہو گئی۔ معائنہ کرنے کے لئے محل سے نکلا۔ گھوڑے پر سوار ہوا۔ گھوڑا اس حال
میں کہ دو پیر اس کے جنت کے دروازے میں تھے اور دو پیر جنت کے دروازے سے باہر تھے۔
گھوڑا اڑیل ٹٹو بن گیا۔ ہر چند کوشش کی گئی مگر گھوڑا ٹس سے مس نہ ہوا۔ طے پایا کہ
شداد جو خود کو خدا کہلاتا تھا۔ گھوڑے سے اتر آئے۔ شداد اس حال میں کہ اس کا ایک
پیر رکاب میں تھا اور ایک پیر غلام کے ہاتھ میں تھا۔ مر گیا۔ ملک الموت عزرائیل نے
فرشتہ نے عجز و انکساری سے اصلی خدا باری تعالیٰ سے عرض کیا۔ اے مالک الملک اے
بادشاہوں کے بادشاہ تو اتنی مہلت تو دے دیتا کہ یہ جنت دیکھ لیتا تو مایوس و
نامراد نہ مرتا۔ خدا نے کہا۔ اے عزرائیل! تجھے خبر ہے یہ کون ہے۔ عزرائیل نے سجدہ
ریز ہو کر عرض کیا۔ میرے مالک میں تو اتنا ہی جانتا ہوں جتنا تو نے مجھے علم دے
دیا ہے۔ شانِ جلال میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ
ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور
مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی
اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان
کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو
اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں
تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ
باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب
سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور
لازوال عیش ہے۔