Topics

جولائی 1993؁ء۔اسلامی اخلاق

اپنے گھر والوں کو اسلامی اخلاق سے آراستہ کر کے اور ان کی صحیح تربیت کے لئے ہر ممکن کوشش کیجئے تا کہ وہ معاشرے کے لئے اعلیٰ نمونہ بن جائیں۔ لڑکے ملک و قوم کے لئے ترقی و کامرانی کی سند کا درجہ حاصل کر لیں اور لڑکیاں اچھی بیویاں اور سعادت نشان مائیں بن کر رحمت کا گہوارہ بن جائیں۔ ایسا گہوارہ جو نوع انسانی کے لئے فلاح و بہبود، مساوات اور روشن مستقبل کی ضمانت ہے۔

                قرآن باالفاظ بلند ارشاد کرتا ہے:

                ’’اور اپنے گھر والوں کو نماز کی تاکید کیجئے اور اس پر خود بھی پابند رہئے!‘‘

                بیویوں پر نہایت خوش دلی کے ساتھ اپنے شوہروں کی اطاعت کرنا فرض ہے۔ اس اطاعت میں مسرت اور شادمانی کا پیغام چھپا ہوا ہے اس لئے کہ یہ خدا کا حکم ہے اور جو بیوی خدا کے حکم کی تعمیل کرتی ہے وہ اپنے خدا کو خوش کرتی ہے۔ خدا کی ہدایات کا تقاضہ یہی ہے اور ازدواجی زندگی کو خوشگوار بنائے رکھنے کا ایک کامیاب فارمولا بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

                ’’نیک بیویاں اطاعت کرنے والی ہیں۔‘‘

                شوہروں کو چاہئے کہ وہ بیویوں پر ناجائز تصرف نہ کریں۔ شوہروں پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ پوری فراخ دلی کے ساتھ رفیقہ حیات کو ضروریات فراہم کریں۔ اور اپنی بیویوں کو تنگ نہ کریں۔ اس حق کو خوش دلی کے ساتھ پورا کرنے کے لئے جدوجہد اور دھوڑ دھوپ کرنا، انتہائی پاکیزہ عمل ہے۔ اس عمل کو انجام دینے سے نہ صرف یہ کہ دنیا میں ازدواجی زندگی کی نعمت ملتی ہے بلکہ اچھا اور مخلص شوہر آخرت میں بھی اجر و انعام کا مستحق بنتا ہے۔

                بیوی کی اہمیت و عظمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ احسن الخالقین کی ایسی صفت ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے تخلیق آدمیت اور اس کی نشوونما کا مظہر بنایا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی کتاب قرآن مجید میں فرماتا ہے:

                ’’اور ان کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی گزاو۔‘‘

                دوسری جگہ یہ ارشاد ہے:

                ’’عورتیں تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا لباس ہو‘‘

                کوئی باشعور آدمی اپنے لباس کو تار تار نہیں کرتا۔ اس کی حفاظت کرتا ہے۔


                کسی فرد کا اپنا ذاتی تشخص اس وقت بنتا ہے جب وہ بیدار ہوتا ہے۔ ہر بچہ دنیاوی کثافتوں سے پاک عالم بالا کے ذہن پر تخلیق ہوتا ہے جب اسے علم ہو جاتا ہے کہ میں پر انوار عالم سے ایک ایسے عالم میں پھینک دیا گیا ہوں جہاں کی زندگی قید و بند کی زندگی ہے تو وہ اضطراب میں مبتلا بلک بلک کر رونا شروع کر دیتا ہے۔ بالفاظ دیگر پیدا ہونے والا ہر بچہ یہ اعلان کرتا ہے کہ زندگی میرے لئے ناپسندیدہ ہے۔ میں اس بات پر برملا اظہار تاسف کرتا ہوں کہ مجھے یہاں قید کر دیا گیا ہے۔

                ہادی برحق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان تکلیف وہ لمحات سے نجات پانے کے لئے ارشاد فرمایا:

                ولادت کے بعد نہلا دھلا کر دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہو۔

                پیدا ہوتے ہی بچے کے کان میں اذان اور اقامت کہنے میں بڑی حکمت ہے وہ یہ کہ انسان کے کان میں سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی عظمت اور کبریائی کی آواز پہنچے۔ جس شہادت کو وہ شعوری طور پر ادا کرنے کے بعد داخل اسلام ہو گا اس کا Patternپہلے ہی دن بن جائے گا۔

                پیدائش کے بعد دوسرا مرحلہ نام کا ہے۔ نام ایک ایسی دستاویز ہے کہ بچے کا رواں دواں، ہڈی ہڈی، عضو عضو طرز عمل، قدوقامت سب کچھ بدل جاتا ہے لیکن نام نہیں بدلتا۔ مطلب یہ کہ نام کسی فرد کے تشخص کا واحد ذریعہ ہے جب کسی بچے کا نام رکھا جاتا ہے تو اس کے دماغ میں ایک پیٹرن جنم لیتا ہے۔ یہی وہ پیٹرن ہے جع معنی اور مفہوم کے ساتھ شعوری زندگی کے لئے ایک طرز عمل متعین کرتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد عالی مقام ہے بچوں کے نام خوبصورت، خوش پسند اور بامعنی رکھو تا کہ نام کی معنویت اور نام کے اثرات بچے کی آئندہ زندگی کو کامیابی و کامرانی سے ہمکنار کر دیں۔

                نام کے انتخاب میں پاک باز اور باکردار بزرگوں کی اعانت حاصل کی جائے کہ نام رکھنے کے معنی اور مفہوم کے ساتھ ساتھ نام رکھنے والے کا ذہن بھی منتقل ہوتا ہے!!

Topics


نورنبوت نور الٰہی-V1

خواجہ شمس الدین عظیمی

زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور لازوال عیش ہے۔