Topics
’’جب تم سے میرے بندے میرے بارے
میں دریافت کریں تو کہہ دو کہ میں تو پاس ہوں۔ جب کوئی پکارنے والا مجھے پکارتا ہے
تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں تو ان کو چاہئے کہ میرے حکموں کو مانیں اور مجھ پر
ایمان لائیں تا کہ صحیح رستہ پائیں۔‘‘ (سورہ بقرہ)
’’اپنے
پروردگار سے عاجزی سے اور چپکے چپکے دعا مانگا کرو۔ وہ حد سے بڑھنے والوں کو دوست نہیں
رکھتا اور زمین میں اصلاح کے بعد فساد برپا نہ کرنا اور خوف و امید کے ساتھ دعائیں
مانگتے رہنا۔ کچھ شک نہیں کہ خدا کی رحمت نیکی کرنے والوں سے قریب ہے۔‘‘ (سورہ اعراف)
ہر
بات، ہر عمل، ہر کردار، انتہا یہ کہ ہماری آواز، ہماری زبان سے نکلا ہوا ہر لفظ فضا
میں لہروں کے دوش پر محوِ پرواز رہتا ہے۔ اگر ہم کسی طرح آواز کے قطر کو سولہ سو قطر
طول موج سے زیادہ چار سو قطر سے کم کرنے پر قاد رہو جائیں تو ہم ہزاروں لاکھوں سال
پہلے گزرے ہوئے اپنے اسلاف کی آوازیں سن سکتے ہیں اور ان تک اپنی آرزوئیں اور تمنائیں
پہنچا سکتے ہیں۔
دعا
بھی ایک آرزو اور تمنا ہے۔ اس کا منتہیٰ وہ ذات اقدس و اکبر ہے جس کے احاطہ قدرت میں
ہر چیز ہے۔ وہ قادر مطلق ہے۔ جب چاہے، جس طرح چاہے کائنات کے جاری و ساری نظام میں
تبدیلی کر سکتا ہے۔ دعا ایک ایسی عبادت ہے جس کا بدل دوسری کوئی عبادت نہیں ہے۔ یہ
ایک ایسا عمل ہے جس سے انسان فی الواقع اپنی نفی کر دیتا ہے اور اپنے پروردگار کے سامنے
وہ کچھ بیان کر دیتا ہے جو کسی قریب ترین ہستی سے بھی نہیں کہہ سکتا۔ خدا سے وہی کچھ
مانگئے جو حلال اور طیب ہے۔ دعا میں خشوع و خضوع ضروری ہے۔ خشوع و خضوع سے مراد یہ
ہے کہ بندے کے دل میں خدا کی عظمت موجود ہو، سر اور نگاہیں جھکی ہوئی ہوں۔ آنکھیں
نم ہوں، انداز و اطوار سے مسکینی اور بے کسی ظاہر ہو رہی ہو۔ دعا چپکے چپکے اور دھیمے
انداز میں مانگئے اور دعا کے ساتھ عمل و کوشش بھی جاری رکھئے۔
نورِ نبوت
ہادیٔ
برحق، سرتاج انبیائ، مجسم رحمت، محسن انسانیتﷺ نے ایک ایسے شخص کا ذکر فرمایا ہے جو
لمبی مسافت طے کر کے مقدس مقامات پر حاضری دیتا ہے، غبار میں اَٹا ہوا ہے، گرد آلود
ہے اور اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف پھیلا پھیلا کر کہتا ہے:
اے
میرے رب! اے میرے رب!
حالانکہ
اس کا کھانا حرام ہے، اس کا پینا حرام ہے، اس کا لباس حرام ہے اور حرام ہی سے اس کے
جسم کی نشوونما ہوئی ہے تو ایسے شخص کی دعا بھلا کیسے قبول ہو سکتی ہے۔
دعائوں
کے ساتھ عمل نہ ہو، کردار نہ ہو، اخلاص نہ ہو تو یہ دعائیں بھی زمین کے کناروں سے باہر
نہیں نکلتیں۔ اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق وہ دعائیں مقبول بارگاہ ہوتی ہیں جن کے
ساتھ مسلسل اور پیہم عمل ہو۔ عمل کے بغیر دعا ایک ایسا جسم ہے جس میں روح نہیں ہے اور
جب جسم میں سے روح نکل جاتی ہے تو اس کی حیثیت ایک لاش کی ہوتی ہے جو کسی کام نہیں
آتی۔ اب سے چودہ سو سال پیشتر جب مسلمانوں کے کردار کی عظمت کا غلغلہ تھا، ان میں
عمل تھا تو دنیائے کفر و استبداد پر اسلام کے شیدائیوں کی حاکمیت قائم ہوتی چلی گئی۔
ہیبت و جبروت کا عالم یہ تھا کہ بیت المقدس کے محافظین نے اللہ کے پاک گھر کی کنجیاں
بدستِ خود پیش کر دی تھیں۔ پھر ایک ایسا دور آیا کہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح
مضبوط قوم فرقوں میں بٹ گئی۔
جب
سے ہوش و حواس کا پہلا قدم زندگی کی منزل میں رکھا ہے۔ ایک ہی بات کانوں نے سنی اور
آنکھوں نے دیکھی کہ مساجد میں، نجلی محفلوں میں، منبروں پر اور لاکھوں کے مجمع میں
دعا کی جا رہی ہے کہ یا اللہ ہمیں دشمنوں پر فتح عطا کر۔
یارو!
یہ کیسا غضب ہے کہ اغیار ہمارے تشخص کو بربریت اور ظلم و تشدد سے مسلسل پامال کر رہے
ہیں اور ہم روز افزوں پستی کی طرف گامزن ہو کر ثم ردنہ اسفل سافلین کی زندہ تصویر بن
گئے ہیں۔ عمل سے کوسوں دور صرف دعا پر اکتفا اور تکیہ کئے بیٹھے ہیں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ
ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور
مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی
اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان
کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو
اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں
تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ
باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب
سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور
لازوال عیش ہے۔