Topics
’’اللہ انہی لوگوں کی توبہ قبول
فرماتا ہے جو نادانی سے بُری حرکت کر بیٹھتے ہیں پھر جلد توبہ کر لیتے ہیں پس ایسے
لوگوں پر اللہ مہربانی کرتا ہے اور وہ سب کچھ جانتا، حکمت والا ہے۔ اور ایسے لوگوں
کی توبہ قبول نہیں ہوتی جو بُرے کام کرتے رہیں۔ یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کی موت
آموجود ہو تو اس وقت کہنے لگے کہ اب میں توبہ کرتا ہوں ‘‘۔
(سورۂ النسائ۔ آیت 18,17)
’’پھر جن لوگوں نے نادانی سے بُرا کام
کیا پھر اس کے بعد توبہ کی اور نیکوکار ہو گئے تو تمہارا پروردگار توبہ کرنے اور نیکو
کار ہو جانے کے بعد بخشنے والا رحمت کرنے والا ہے‘‘۔ (سورۂ النحل۔ آیت 119)
’’اے ایمان والو! اللہ کے آگے صاف دل
سے توبہ کرو۔ امید ہے کہ وہ تمہارے گناہ تم سے دور کر دے گا اور تم کو باغ ہائے بہشت
میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں۔ اُس دن اللہ نبی کو اور ان لوگوں کو
رسوا نہیں کرے گا جو ان کے ساتھ ایمان لائے ہیں۔ اُن کا نور اُن کے آگے اور دا ہنی طرف چل رہا ہو گا اور وہ اللہ سے التجا کریں
گے کہ اے پروردگار ہمارا نور ہمارے لئے پورا کرو اور ہمیں معاف فرما۔ بے شک اللہ ہر
شئے پر قادر ہے‘‘۔ (سورۂ التحریم۔ آیت
8)
خدا کو سب سے زیادہ خوشی جس چیز سے ہوتی
ہے وہ بندے کی توبہ ہے۔ توبہ کے معنی ہیں پلٹنا، رجوع کرنا۔ بندہ جب فکر و جذبات کی
گمراہی میں مبتلا ہو کر گناہوں کی دلدل میں پھنستا ہے تو خدا سے بچھڑ جاتا ہے اور بہت
دور جا پڑتا ہے۔ گویا خدا سے وہ گم ہو گیا اور جب وہ پھر پلٹتا ہے اور شرمسار ہو کر
خدا کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو یوں سمجھئے کہ گویا خدا کو اپنا گم شدہ بندہ مل گیا۔
توبہ ایک ایسی عبادت ہے جس میں فی الواقع
آدمی اپنی نفی کر دیتا ہے اور اپنے پروردگار کے سامنے وہ سب کہہ دیتا ہے جو وہ کسی
کے سامنے نہیں کہہ سکتا۔ گناہوں کی ہیبت ناک دلدل میں پھنسی ہوئی کوئی قوم جب اپنے
گناہوں پر نادم اور اشکبار ہو کر خدا کی طرف جذبۂ بندگی کے ساتھ پلٹتی ہے اور اپنی
لغزشوں ، کوتاہیوں، چھوٹی بڑی خطائوں کی گندگی کو ندامت کے آنسوئوں سے دھو کر پھر
خدا سے عہدِ وفا استوار کرتی ہے تو اس والہانہ طرزِ عمل کو قرآن توبہ کے لفظ سے تعبیر
کرتا ہے اور یہی توبہ استغفار ہر طرح کے فتنہ و فساد، خوف و دہشت اور عدم تحفظ کے احساس
سے محفوظ رہنے کا حقیقی علاج ہے اور اگر اس کے برخلاف بندہ گناہوں اور کوتاہیوں کی
طرف توجہ نہیں دیتا تو یہ شیطانی عمل آدمی کو کھوکھلا کر دیتا ہے اور دین و دنیا میں
رسوائیاں اس کا مقدر بن جاتی ہیں اور پھر جب یہ عمل اس کی زندگی پر محیط ہو جاتا ہے
تو آدم زاد کے قلوب اور کانوں پر مہر لگا دی جاتی ہے اور آنکھوں پر پردے ڈال دیئے
جاتے ہیں اور یہ انتہائی صورت بلاشبہ عذابِ الیم ہے اور یہ عذاب مایوسی، بدحالی، خوف
و ہیبت بن کر اس کے اوپر مسلط ہو جاتا ہے۔
سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا
ارشاد ہے:
’’خدا رات کو اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے تا
کہ جس شخص نے دن میں کوئی گناہ کیا ہے وہ رات میں خدا کی طرف پلٹ آئے اور دن میں وہ
اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے تا کہ رات میں اگر کسی نے گناہ کیا ہے تو وہ دن میں اپنے رب کی
طرف پلٹے اور گناہوں کی معافی مانگے۔ یہاں تک کہ سورج مغرب سے طلوع ہو‘‘۔
ہاتھ پھیلانے سے مراد یہ ہے کہ وہ اپنے
بندوں کو اپنی طرف بلاتا ہے اور اپنی رحمت سے ان کے گناہوں کو ڈھانپنا چاہتا ہے۔
حضور نبی کریمﷺ کا یہ بھی فرمان ہے کہ:
’’سارے کے سارے انسان خطاکار ہیں اور
بہترین خطاکار وہ ہیں جو توبہ کرنے والے ہیں‘‘۔
خدا کے حضور اپنے گناہوں کا اقرار کیجئے۔
اس ہی کے سامنے گڑگڑایئے اور اسی عفو و درگر کرنے والی ستار العیوب غفار الذنوب ہستی
کے سامنے اپنی عاجزی، بے کسی اور اپنی خطائوں
کا اعتراف کیجئے۔ عجز و انکساری خطاکار انسان کا وہ سرمایہ ہے جو صرف خدا کے حضور پیش
کیا جا سکتا ہے۔ انفرادی اور اجتماعی طور پر نہایت عاجزی کے ساتھ توبہ استغفار کرتے
ہوئے اپنے اللہ خالق حقیقی کی طرف رجوع ہو کر یہ عزم کیجئے کہ ہم اپنے اور ملت کے اندر
سے وہ تمام روگ ختم کر کے دم لیں گے جن کی وجہ سے ہم وسوسوں، توہمات اور خوف میں مبتلا
ہیں۔ ناپ تول میں کمی، ذخیرہ اندوزی، اسمگلنگ، منافقت، نمود و نمائش اور دنیا پرستی
ظاہری طور پر کتنی ہی خوشنما نظر آئے اس کا نتیجہ تباہی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔
آنحضرتﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
’’ایک وہ گناہ ہے جس کی ہرگز معافی نہیں
ہو گی وہ شرک ہے۔ ایک وہ گناہ ہے جن کو اللہ تعالیٰ انصاف کے بغیر نہ چھوڑے گا۔ مثلاً
بندوں کے باہمی مظالم، آپس کی زیادتیاں اور ایک دوسرے کی حق تلفیاں۔ ان کا بدلہ ضرور
دلایا جائے گا۔ ایک وہ گناہ ہیں اللہ کے ہاں جن کی وہ اہمیت نہیں۔ یہ بندوں کی وہ خطائیں
اور تقصیرات ہیں جن کا تعلق صرف بندے اور خالق و مالک اللہ سے ہے۔ وہ چاہے گا تو معاف
فرما دے گا‘‘۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ
ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور
مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی
اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان
کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو
اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں
تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ
باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب
سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور
لازوال عیش ہے۔