Topics
آدمی متعفن اور سڑی ہوئی غذائیں
کھانے کے بعد بیماریوں پریشانیوں اور بے چینیوں سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ کیا سیاہ
کارانہ زندگی میں رہتے ہوئے ارادوں میں کامیابی ممکن ہے؟ ایسی کامیابی جس کامیابی
کو حقیقی کامیابی اور مستقل کامیابی کہا جا سکے۔ ظاہر ہے کہ ان تمام سوالات کا
جواب یہ ہے کہ برے کام کا نتیجہ برا مرتب ہوتا ہے اور اچھے کام کا نتیجہ اچھائی
میں ظاہر ہوتا ہے۔ اس اصول کو لامحالہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ انسانی فلاح خیر میں
ہے اور شر کا نتیجہ ہمیشہ تباہی کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ یہی قانون اجتماعی
زندگی کا ہے۔ اجتماعی طور پر اگر کوئی معاشرہ سیاہ کارانہ زندگی میں مبتلا ہو جائے
تو اس کا نتیجہ بھی اجتماعی تباہی مرتب ہوتا ہے۔ یہ بات کون نہیں جانتا کہ مسلمان
من حیث القوم ادبار زدہ زندگی گزار رہا ہے۔ اس کی حکومت ایک عالم کو محیط تھی۔ آج
یہ ان لوگوں کا محتاج کرم ہے۔ جو قومیں اس کی کفالت میں زندگی گزارتی تھیں۔
آسمانی
صحائف اور تمام اللہ کے فرستادہ پیغمبروں نے نوع انسانی کو یہی پیغام دیا ہے کہ
راست بازی دیانت اور حقیقت پسندی انسانی زندگی کی معراج ہے جب کسی قوم کو یہ معراج
حاصل ہو جاتی ہے تو اس کو سکون قلب مل جاتا ہے۔ سکون قلب ایک ایسی کیفیت ہے جس کی
موجودگی میں انسان کے اندر سوئے ہوئے دو کھرب خلیے بیدار ہو جاتے ہیں اور وہ قوم
جس کے اندر سوئے ہوئے خلئے جس مناسبت سے بیدار ہوتے ہیں۔ اسی مناسبت سے اس کے اندر
نت نئی ایجادات کی صلاحیتیں کام کرنے لگتی ہیں۔ یہ صلاحیتیں کیا ہیں؟ یہ صلاحیتیں
اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں۔ ایسی صفات جن کے اندر یہ پیغام چھپا ہوا ہے کہ انسان
زمین اور آسمان اور پوری کائنات کا حاکم ہے۔ اللہ تعالیٰ کا قانون سچا ہے، برحق
ہے، جو قومیں اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی صفات یعنی انسانی صلاحیتیں اپنے اندر بیدار
کر لیتی ہیں وہ زمین پر حکمرانی کرتی ہیں اور جو قوم ان صلاحیتوں سے کام نہیں لیتی
وہ محکوم اور غلام بن جاتی ہے۔
آج
کا دور ایک قوم کے لئے محکومیت اور طوق غلامی کا دور ہے۔ اللہ تعالیٰ کے قانون کے
مطابق جو قوم زندہ ہے اور اس کے خون میں زندگی رواں دواں ہے اور جو قوم زمین پر
پھیلائے ہوئے اللہ تعالیٰ کے وسائل کو استعمال کرنے کی جدوجہد میں مشغول ہے وہ
حاکم ہے اور دوسری قوم کے لئے جس میں انتشار ہے، اختلاف ہے، منافقت ہے، بے یقینی
ہے اور اللہ تعالیٰ کی عطا کی ہوئی نعمتوں کی ناشکری ہے وہ محروم اور ادبار زدہ
ہے۔
آیئے!
ہم
اپنے گریبانوں میں جھانکیں اور اپنی زندگی کا تجزیہ کریں کہ ہمارا شمار حاکم قوم
میں ہے یا ہمارا مقدر محرومیت بن گیا ہے۔
اگر
توازن احکام پر جو آج تجھے دے رہا ہوں عمل کرے گا تو تیرا خداوند تجھے زمین کو
قوموں میں سرفراز کرے گا۔ ساری برکتیں تجھ پر نازل ہوں گی۔ تو شہر میں بھی مبارک
ہو گا اور کھیت میں بھی۔ تو گھر میں آتے وقت اور باہر جاتے وقت مبارک ہو گا۔ تیرے
حملہ آور تیرے سامنے مارے جائیں گے اور وہ ایک راہ سے حملہ کریں گے تو سات راہوں
سے بھاگیں گے…خداوند تیری زمین کے پھلوں میں فراوانی دے گا۔ وہ اپنا خاص خزانہ
تیرے آگے کھولے گا۔ آسمان تیری زمین پر بروقت مینہ برسائے گا…تو اوروں کو قرض دے
گا پر تو قرض نہ لے گا…لیکن اگر تو نے خداوند کی آواز کو نہ سنا تو…پھر تو شہر
میں بھی لعنتی ہو گا اور کھیت میں بھی…تو اندر آتے اور باہر نکلتے وقت لعنتی ہو
گا…خداوند تیرے کاموں پر لعنت، حیرت اور ملامت نازل کرے گا۔ یہاں تک کہ تو ہلاک ہو
جائے گا…وبا تجھ سے لپٹی رہے گی…خداوند تجھ کو سوکھنڈی، تپ دق، جوش خون، سخت جلن،
خشک سالی اور گرم لُو سے مارے گا۔ تیرا آسمان پیتل کا اور تیری زمین لوہے کی بن
جائے گی۔ خداوند مینہ کے بدلے تیری زمین پر خاک دھول برسائے گا…تو اپنے دشمن پر
ایک راہ سے حملہ کرے گا اور سات راہوں سے بھاگے گا…خداوند تجھ کو دیوانگی،
نابینائی اور گھبراہٹ سے مارے گا جس طرح اندھا (نابینائی کے) اندھیرے میں ٹٹولتا
ہے تو دوپہر کو ٹٹولتا پھرے گا…تیرے بیٹے اور تیری بیٹیاں دوسری قوم کو دے دی
جائیں گی تو دیکھتا رہ جائے گا اور ان کے انتظار میں تیری آنکھیں تھک جائیں گی۔
تیرے بازوئوں میں زور نہیں رہے گا۔ تیری محنتوں کا پھل ایک اجنبی قوم کھا جائے گی۔
(کتاب
موسیٰ ؑ۔ استشائ۲۸۔
۱۔۳)
دنیا
میں ایسی کوئی مثال سامنے نہیں آئی کہ ظالم کو دیر سویر اس کے ظلم کا بدلہ نہ ملا
ہو۔ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ بدمعاش اور بدکار آدمی کو زندگی میں سکون
قلب کی دولت حاصل نہیں ہوتی۔ مکافات عمل کا یہ قانون ہے کہ کوئی بندہ اس وقت تک
رنگ و بو کی اس دنیا سے رشتہ منقطع نہیں کر سکتا جب تک وہ مکافات عمل کا کفارہ ادا
نہیں کر دیتا۔ کیا کوئی بندہ یہ کہہ سکتا ہے کہ خیانت اور بددیانتی سے اس کی مسرت
میں اضافہ ہوا ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ
ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور
مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی
اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان
کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو
اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں
تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ
باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب
سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور
لازوال عیش ہے۔