Topics

دسمبر1996؁ء۔دعوت حکمت کے ساتھ

اللہ کے مشن (دین) کو پھیلانا ہر امتی پر فرض ہے۔ اس فرض کی ادائیگی کے لئے پہلے خود اپنا عرفان حاصل کریں۔ خود آگاہی اور اپنی ذات کا عرفان ایسی روحانی کامیابی ہے جس کے ذریعے انسان اپنی دعوت کا سچا نمونہ بن جاتا ہے۔ جو کچھ کہتا ہے عمل و کردار سے اس کا اظہار ہوتا ہے۔ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے اخلاقی، دینی اور روحانی مشن کو عام کرنے کے لئے لوگوں کو دعوت دیتا ہے، پہلے خود اس کی مثال قائم کرتا ہے۔ خدا کو یہ بات انتہائی ناگوار گزرتی ہے کہ دوسروں کو نصیحت کرنے والے خود بے عمل ہیں۔ نبی برحق صلی اللہ علیہ و سلم نے بے عمل دعوت دینے والوں کو انتہائی ہولناک عذاب سے ڈرایا ہے۔

                اگر ہم چاہتے ہیں کہ دوسرا شخص ہمارا ہم نوا بن جائے تو ہمیں اس شخص سے قریب ہونا ہو گا۔ اس کے رجحانات کا اندازہ کر کے اور اس کی ذہنی صلاحیتوں کو مدنظر رکھ کر اس سے بات کرنی ہو گی۔ اس کے ذاتی معاملات میں اگر وہ چاہتا ہے تو تعاون کر کے اس کی ہمدردیاں حاصل کرنا ہوں گی۔ خدمت اور قلبی لگائو ایک ایسا عمل ہے کہ آدمی نہ چاہتے ہوئے بھی دوست بن جاتا ہے۔ تبلیغ حکمت کے ساتھ کیجئے۔ جس مسلک اور جس عقیدہ پر پردہ قائم ہے براہ راست اس پر تنقید و تبصرہ نہ کیجئے۔ پہلے کوشش کی جائے کہ وہ آپ کو اپنا ہمدرد اور محسن سمجھے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ دامے درمے قدمے سخنے اس کی خدمت کی جائے۔ جب آپ کے اوپر اس کا اعتماد بحال ہو جائے پھر نہایت نرم اور شیریں لہجے میں اسے نصیحت کیجئے۔ کوئی بات سمجھنے کے لئے وہ بحث و مباحثہ کرے تو اپنے مقدور بھر اس کے سوالات کا شافی جواب دیجئے۔ بات کرتے وقت مخاطب کی صلاحیت کو ہرگز نظر انداز نہ کیجئے۔ تبلیغ کی گراں بہا دولت کو جلد بازی، نادانی اور جھنجھلاہٹ سے ضائع نہ کیجئے۔ ہر طبقے ہر گروہ اور ہر فرد سے اس کی فکری رسائی، استعداد، صلاحیت، ذہنی کیفیت اور سماجی حیثیت کے مطابق بات کیجئے اور ان حقیقتوں کو باہم افہام و تفہیم کے ساتھ دعوت کی بنیاد بنایئے جن میں اتفاق ہو اور جو آپس میں رشتہ محبت کی راہ ہموار کریں۔ اگر آپ تنقید کریں تو یہ عمل تعمیری ہو، اخلاص و مروت کی آئینہ دار ہو۔ ضد، ہٹ دھرمی، نفرت اور تعصب کے جذبات سے ہمیشہ اپنا دامن بچائے رکھئے اور جہاں یہ کیفیتیں پیدا ہوتی نظر آئیں اپنی زبان بند کر لیجئے اور اس محفل سے اٹھ جا یئے۔

                قرآن کریم فرماتا ہے:

                ’’اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دیجئے حکمت کے ساتھ، عمدہ نصیحت کے ساتھ اور مباحثہ کیجئے تو ایسے طریقے پر جو انتہائی بھلا ہو۔‘‘   (النمل)

Topics


نورنبوت نور الٰہی-V1

خواجہ شمس الدین عظیمی

زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور لازوال عیش ہے۔