Topics
احادیث کی روشنی میں:
جب
کوئی مرد رات کو اپنی بیوی کو جگاتا ہے اور وہ دونوں مل کر دو رکعت نماز قائم کرتے
ہیں تو شوہر کا نام ذکر کرنے والوں میں اور بیوی کا نام ذکر کرنے والیوں میں لکھ لیا
جاتا ہے۔
اگر
کسی کی دو بیویاں ہیں اور اس نے ان کے ساتھ انصاف اور برابری کا سلوک نہ کیا تو قیامت
کے روز وہ شخص اس حال میں آئے گا کہ اس کا آدھا دھڑ گر گیا ہو گا۔
دو
قسم کے آدمی وہ ہیں جن کی نمازیں ان کے سروں سے اونچی نہیں اٹھتیں……اس غلام کی نماز
جو اپنے آقا سے فرار ہو جائے۔ اور اس عورت کی نماز جو شوہر کی نافرمانی کرے۔
عورت
جب پانچوں نمازیں قائم کر کے اپنی آبرو کی حفاظت کرے۔ اپنے شوہر کی فرمانبردار رہے
تو وہ جنت میں جس دروازے سے چاہے داخل ہو جائے۔
نکاح
سے بہتر کوئی چیز دو محبت کرنے والوں کیلئے نہیں پائی گئی۔ حضرت صفیہ کو نبی مکرم علیہ
الصلوٰۃ والسلام سے بے انتہا محبت تھی۔ جب آپ بیمار ہوئے تو انتہائی حسرت کے ساتھ
بولیں۔ کاش آپ کی بجائے میں بیمار ہوتی۔ جب دوسری ازواج مطہرات نے حیرت سے حضرت صفیہ
کی طرف دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
’’یہ
دکھاوا نہیں ہے بلکہ صفیہ سچ کہہ رہی ہے۔‘‘
خدا
قیامت کے روز اس عورت کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھے گا جو شوہر کی ناشکرگزار ہو
گی۔
ایک
بار بیگم عثمان ابن مظعون سے حضرت عائشہ کی ملاقات ہوئی تو دیکھا کہ بیگم عثمان نے
بنائو سنگھار نہیں کیا ہوا ہے۔ حضرت عائشہ کو بہت تعجب ہوا۔ اور ان سے پوچھا۔
بی
بی۔ کیا عثمان باہر سفر پر گئے ہوئے ہیں؟
چھوٹے
بچوں کے سر پر شفقت کے ہاتھ پھیریئے۔ بچوں کو گود میں لیجئے۔ پیار کیجئے۔ اور ان کے
ساتھ کھیلئے۔ خوش طبعی کے ساتھ ان کے ساتھ رہیئے سخت گیر نہ رہیئے۔ اس طرز عمل سے بچوں
کے دل میں والدین کیلئے والہانہ جذبہ محبت بیدار نہیں ہوتا۔ ان کے اندر خود اعتمادی
پیدا نہیں ہوتی۔ اور ان کی فطری نشوونما رک جاتی ہے۔
باپ
اپنی اولاد کو جو کچھ دے سکتا ہے اس میں سے بہتر عطیہ اولاد کی اچھی تعلیم و تربیت
ہے۔
مومن
سراپا محبت ہے اور اس آدمی میں سرے سے کوئی خیر و خوبی نہیں ہے جو نہ تو دوسروں سے
محبت کرے اور نہ دوسرے اس سے محبت کریں۔
قرآن
کی روشنی میں:
مومن
مرد اور مومن عورتیں آپس میں ایک دوسرے کے دوست اور معاون ہیں۔ (سورۃ توبہ)
حقیقت
میں خدا کے محبوب وہ لوگ ہیں جو خدا کی راہ میں اس طرح پیر جما کر لڑتے ہیں گویا سیسہ
پلائی ہوئی دیوار ہیں۔ (سورہ الصف)
سنو!
اللہ کے دوستوں کیلئے نہ کسی بات کا خوف ہو گا اور نہ غم
اے
انسانوں! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا۔ تمہارے کنبے اور قبیلے بنائے
تا کہ تم باہم پہچانے جائو۔ بلاشبہ خدا کے نزدیک تم سب میں زیادہ معزز و مکرم وہ ہے
جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہے۔
یہ
خدا کی رحمت ہی تو ہے کہ آپﷺ ان لوگوں کیلئے انتہائی نرم دل ہیں ورنہ آپﷺ اگر سخت
مزاج اور سخت گیر ہوتے تو یہ سب آپ کے گرد و پیش سے چھٹ جاتے۔ آپﷺ شفقت سے اپنا بازو
پھیلاتے ان مومنوں کے لئے جو آپ کی پیروی کر رہے ہیں۔ (الشعرائ)
اور
اپنے آپ کو ان لوگوں کی حقیقت اور رفاقت پر مطمئن رکھئے جو اپنے رب کی رضا کے طالب
بن کر صبح و شام اس کو پکارتے رہتے ہیں ۔ اور ان کو نظر کر کے دنیوی شان و شوکت کی
طلب میں اپنی نگاہیں نہ دوڑایئے۔ (الکہف)
ان
سب کیلئے ابا جان! ہمارے گناہوں کی بخشش کیلئے دعا کیجئے۔ واقعی ہم بڑے خطاکار تھے۔
حضرت
یعقوب نے کہا۔ میں اپنے رب سے تمہارے لئے ضرور معافی کی دعا مانگوں گا۔ اور وہ تمہیں
ضرور معاف کر دے گا۔ یقینا وہ بڑا ہی معاف کرنے والا اور انتہائی رحم کرنے والا ہے۔ (سورہ یوسف)
اور
ان تینوں کو بھی خدا نے معاف کر دیا جن کا معاملہ ملتوی کر دیا گیا تھا جب زمین اپنی
ساری وسعتوں کے باوجود ان پر تنگ ہو گئی اور ان کی جانیں بھی ان پر بار ہونے لگیں اور
انہوں نے جان لیا کہ خدا سے بچنے کیلئے کوئی پناہ گاہ نہیں ہے۔ سوائے اس کے کہ خود
اس کی پناہ لی جائے تو خدا اپنی مہربانی سے ان کی طرف پلٹا تا کہ وہ اس کی طرف پلٹ
آئیں بلاشبہ وہ بڑا ہی معاف فرمانے والا اور انتہائی مہربان ہے۔ (سورہ التوبہ)
حضرت
عمرؓ فرماتے ہیں کہ ایک شب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو پریشان کرنے کے خیال
سے گھر سے نکلا۔ آپ مسجد حرام میں جا رہے تھے۔ آپ بڑھ کر مسجد میں داخل ہو گئے اور
نماز شروع کر دی۔ میں سننے کھڑا ہو گیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سورہ الحاقہ کی
قرأت فرمائی۔ میں اس کلام کو سن کر حیرت میں تھا۔ کلام کا نظم اور انداز نہایت دلکش
معلوم ہوتا تھا۔ میرے دل میں خیال آیا کہ خدا کی قسم یہ شاعر ہے۔ ابھی یہ خیال آیا
ہی تھا کہ آپ نے یہ آیت پڑھی:
یہ
ایک بزرگ قاصد کا کلام ہے اور یہ کسی شاعر کا کلام نہیں لیکن تم سے کم ہی ایمان لاتے
ہیں۔
میں
نے جو سنا تو فوراً دل میں خیال آیا۔ اوہو! یہ تو میرے دل کی بات جان گیا۔ یہ کاہن
ہے اس کے بعد ہی آپ نے یہ آیت پڑھی۔
یہ
کاہن کا کلام بھی نہیں ہے۔ تم بہت کم نصیحت پاتے ہو۔ یہ تو جہانوں کے رب کی طرف سے
اترا ہے۔ (قرآن)
آپ
صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ سورہ آخر تک پڑھی اور میں نے محسوس کیا کہ اسلام میرے دل
میں گھر کر رہا ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ
ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور
مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی
اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان
کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو
اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں
تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ
باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب
سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور
لازوال عیش ہے۔