Topics

فروری 1990؁ء۔وجود کائنات

جب سے یہ کائنات وجود میں آئی ہے اور کائنات میں ایک بہت چھوٹے یا بہت بڑے سیارے میں آدم تخلیق ہوا ہے، آدم برادری کا ہر باشعور فرد یہ سوچتا ہے کہ کائنات کیسے بنی۔ اور کائنات کا بنانے والا کون ہے۔ انسان جو کائناتی حلقے میں عقل و شعور میں ممتاز فرد ہے یہ بھی سوچتا ہے کہ کائنات میں میری حیثیت کیا ہے، میں کیوں پیدا ہوا ہوں، مجھے کس نے پیدا کیا ہے۔ اگر میرا پیدا کرنے والا کوئی ہے تو اس وجود کی تعریف کیا ہے؟

                کچھ لوگوں نے عقلی بساط پر وجود کائنات پر غور کیا اور ان کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا تو انہوں نے تخلیق کائنات کے بارے میں نظریات قائم کر لئے۔

                ایک گروہ نے کہا:

                خدا کا وجود نہیں ہے۔ کائنات حادثاتی طور پر بن گئی ہے۔ کائناتی تخلیق میں کسی ہستی کا عمل دخل نہیں ہے۔

                دوسرے گروہ نے یہ رائے قائم کی کہ:

                کائنات کی ابتدا نہیں ہے۔ ہمیشہ سے ہمیشہ رہے گی۔ کائنات تخلیقی عمل ہے۔ اور حرکت خود مادہ ہے۔

                لیکن تاریخ انسانی کی یہ مجبوری اپنی جگہ قابل توجہ رہی ہے کہ تاریخ کے ہر دور میں دانشور اور مفکر نہ مانتے ہوئے بھی کسی ہستی کا نام لیتے رہے ہیں۔

                مذاہب نے اگر خالق ہستی کا نام یزدان، ایک، ایلیاہ، بھگوان، گاڈ، خدا یا رحمٰن رکھا ہے تو استدلال کے گورکھ دھندے میں مبتلا لوگوں نے اس کا نام حادثہ، نیچر، گیس، آتشی لاوا یا اتفاق رکھ دیا ہے۔ ہمارے علم میں یہ حقیقت بھی ہے کہ آدم زاد برادری کی عظیم اکثریت ایک خالق کے وجود کو مانتی چلی آئی ہے۔ کائنات کے اس خالق کو ہی وہ منتظم، مدبر اور رب العالمین قرار دیتی ہے۔

                اس ماہ کی مجلس میں ہم دونوں نظریات کو سامنے رکھ کر علم حضوری کی بنیاد پر یہ تلاش کرتے ہیں کہ خالق کے بغیر کائنات کا وجود ممکن بھی ہے یا نہیں۔ یہ کائنات اگر حادثاتی طور پر وجود میں آئی تو کائنات کی زندگی اور کائناتی تسلسل کن عوامل پر قائم ہے؟

                دل کہتا ہے اور روشن دماغ اس بات کا تقاضہ کرتا ہے کہ ہم سوچیں کہ کسی حادثہ یا اتفاق سے مادے میں حرکت پیدا ہونے کے بعد محض حرکت کیوں نہیں رہی۔ حرکت میں ارتقائی عمل کیسے جاری ہو گیا؟

                ہر انسان اس وقت انسان ہے جب وہ پیدا ہو جاتا ہے۔ مادہ اس وقت مادہ ہے جب اس کا ظہور ہوتا ہے۔ ہم کسی بھی طرح اس عمل سے صرف نظر نہیں کر سکتے کہ مادیت بجائے خود تخلیق ہے۔ ہم مکان بناتے ہیں ، مکان میں جو میٹیریل لگتا ہے وہ سب مادی ظہور ہے لیکن اینٹ اس وقت تک نہیں بنتی جب تک ریت، بجری، سیمنٹ نہ ہو۔ ریت کا وجود اسی وقت ہے جب آسمان سے باتیں کرتے ہوئے پہاڑوں میں سے بڑی بڑی چٹانیں ٹوٹ کر ہزاروں فٹ کی بلندی سے لڑھکتی ہوئی نیچے آتے آتے چھوٹے ذرات میں تبدیل ہو جائیں۔ زمین نہ ہو تو پہاڑ نہیں ہونگے۔ پہاڑ نہیں ہونگے تو سیمنٹ نہیں بنے گا۔ پانی نہ ہو تو کسی چیز کا وجود ہی عدم ہو جائے گا۔

                سنیئے کہ:

                اللہ کی آخری کتاب اس سلسلے میں آدم زاد برادری کے دانشوروں، مفکروں اور سائنسدانوں کے لئے کیا لائحہ عمل متعین کرتی ہے۔

                یقیناً تمہارے لئے چوپایوں میں عبرت ہے ان کے پیٹوں میں گوبر اور خون کے درمیان سے خالص دودھ ہم تمہیں پلاتے ہیں جو پینے والوں کے لئے خوشگوار ہے۔  (النحل ۶۶)

                وہ لوگ جو اللہ کے علاوہ ان دوسروں کو پکارتے ہیں جو مکھی بھی کبھی پیدا نہیں کر سکتے چاہے سارے اس کام کے لئے اکٹھے کیوں نہ ہو جائیں اور اگر کوئی مکھی ان سے کوئی چھین لے جائے تو وہ واپس نہیں لے سکتے۔  (الحج۔ ۷۳)

                کیا انسان پر زمانے میں ایسا لمحہ بھی آیا ہے کہ وہ کوئی قابل ذکر چیز نہیں تھا۔ ہم نے اسے ایک بوند سے پیدا کیا تا کہ اسے آزمائیں۔ چنانچہ ہم نے اس ایک بوند کو سمیع و بصیر بنا دیا۔  (الدھر۔ ۱ تا ۲)

                مینگنی اونٹ کے وجود پر دلالت کرتی ہے (یعنی مینگنی کا نظر آ جانا اس بات کی دلیل ہے کہ اونٹ ضرور یہاں سے گزرا ہے) اور قدموں کے نشان کسی چلنے والے کا پتہ دیتے ہیں۔ پھر یہ کیا بات ہوئی کہ بڑے بڑے برجوں والا آسمان اور بڑی بڑی گھاٹیوں والی زمین اور موجوں والے سمندر کسی لطیف اور خبیر ذات کے وجود پر دلالت نہ کریں۔ (القرآن)

                کیا تم نے اس پانی کو غور سے دیکھا جسے تم پیتے ہو، کیا تم نے اسے بارش کے ذریعے اتارا ہے یا اس کے اتارنے والے ہم ہیں؟ اگر ہم چاہیں تو اسے (میٹھے پانی کو) کھاری بنا دیں۔ پس تم شکر کیوں نہیں کرتے۔  (الواقعہ۔ ۶۸ تا ۷۰)

                ان کے لئے ایک نشانی مردہ زمین ہے جسے ہم نے زندہ کیا اور اس میں سے ایک دانہ نکالا جسے وہ کھاتے ہیں۔ ہم نے اس میں انگور اور کھجور کے باغ پیدا کئے اور اس میں چشمے جاری کر دیئے تا کہ لوگ زمین کے پھل کھائیں۔ اور یہ سب کچھ انسان کے ہاتھوں نے نہیں بنایا۔ پس کیا یہ لوگ شکر نہیں کرتے؟ (یٰسٓ۔ ۳۳ تا ۳۵)

                بے شک اللہ تعالیٰ ہی دانے اور گٹھلی کو پھاڑنے والا ہے۔ وہ مردہ میں سے زندہ کو نکالتا ہے۔ اور زندہ میں سے مردہ نکال لاتا ہے۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا کرشمہ ہے۔ تو پھر تم لوگ کہاں پلٹ کے جاتے ہو۔ (انعام۔ ۹۵)

                انسان اپنی خوراک کی طرف دیکھے (کہ کہاں سے آئی) ہم ہی نے پانی برسایا۔ (جی بھر کر)۔ پھر زمین کو پھاڑ دیا۔ (بیج کے اندر سے پورا زمین کو چیرتا ہوا باہر نکلا)۔  (عبس۔ ۲۴ تا ۲۶)

                ان کیلئے ایک نشانی رات ہے ہم اس میں سے دن نکالتے ہیں جب کہ وہ اندھیروں میں گم ہوتے ہیں۔ سورج اپنے مدار پر رواں دواں ہے۔ یہ منصوبہ ہے ایک زبردست اور باخبر ہستی کا اور چاند کی ہم نے منزلیں مقرر کی ہیں۔ یہاں تک کہ کھجور کی پرانی ٹہنی کی طرح باریک رہ جاتا ہے نہ سورج سے یہ ہو سکتا ہے کہ چاند سے جا ٹکرائے اور نہ رات دن سے سبقت کر سکتی ہے۔ (اپنے مقررہ وقت سے آگے پیچھے نہیں ہٹ سکتے) تمام سیارگان فلک اپنے مقررہ راستوں پر چل رہے ہیں۔ (اس سے سرمو انحراف نہیں کر سکتے)۔ (یٰسٓ۔ ۳۷ تا ۴۰)

                کیا وہ بغیر کسی شئے کے پیدا کئے گئے ہیں یا وہ خود پیدا کرنے والے ہیں؟ کیا انہوں نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے؟ بلکہ اصل بات یہ ہے کہ وہ (کسی خالق کے وجود پر) یقین نہیں رکھتے۔ (الطور۔ ۳۵تا۳۶)

                انسان کو اپنی غذا کی طرف دیکھنا چاہئے۔ ہم نے بارش کا پانی اتارا، پھر زمین کو شق کیا۔ اور اس میں ہم نے دانے اگا دیئے۔ دانے، انگور، سبزیاں، زیتون، کھجور اور باغات کے جھنڈ کے جھنڈ اور پھل اور گھاس پھونس، جو تمہاری غذا کا سامان بھی ہے اور تمہارے چوپایوں کے لئے بھی۔ (عبس۔ ۲۴تا۲۶)

                کیا ہم نے زمین کو بچھونا اور پہاڑوں کو میخیں نہیں بنا دیا۔ اور ہم نے تمہیں جوڑا جوڑا پیدا کیا۔ تمہارے لئے نیند کو باعث آرام بنایا۔ رات کو تمہارے لئے پوشیدگی کا سامان بنایا۔ دن کو روزی کمانے کا سبب بنایا۔ اور تمہارے اوپر سات مضبوط آسمان بنا دیئے۔ ایک چمکتا ہوا چراغ بنایا۔ اور بادلوں سے موسلا دھار بارش نازل کی تا کہ اس سے ہم اناج، سبزیاں اور گھنے باغات اگائیں۔ (النسائ۔ ۶ تا۱۶)

                ہم نے تمہیں پیدا کیا ہے۔ پس کیا تم اس کی تصدیق نہیں کرتے؟ کہا تم نے دیکھا ہے وہ قطرہ جو تم صورت کے رحم میں ٹپکاتے ہو؟ کیا ان قطروں کو تم پیدا کرتے ہو یا انہیں پیدا کرنے والے ہم نہیں۔ (الواقعہ۔ ۵۸تا۵۹)

                ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصہ سے بنایا۔ پھر ہم نے اسے نطفہ کی شکل میں ایک معینہ مدت تک ایک محفوظ مقام میں رکھا۔ پھر ہم نے نطفے سے خون کا لوتھڑا پیدا کیا۔ پھر ہم نے خون کے لوتھڑے سے گوشت کی بوٹی کو پیدا کیا۔ پھر بوٹی(کے اجزاء سے) ہڈیاں پیدا کیں پھر ہم نے ان ہڈیوں پر گوشت چڑھا دیا۔ پھر ہم نے اس میں (روح ڈال کر) اس کو ایک دوسری ہی طرح کی مخلوق بنا دیا۔ سو کیسی بڑی شان ہے اللہ کی جو تمام ثنائوں سے بڑھ کر ہے۔  (المومنون۔ ۲تا۴)

                اس کی بادشاہی ہے آسمانوں اور زمین پر جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ کسی کو بچیاں عطا فرما دیتا ہے، کسی کو لڑکے عطا فرما دیتا ہے۔ کسی کو لڑکے اور لڑکیاں دونوں عطا فرما دیتا ہے اور وہ چاہتا ہے تو کسی کو بانجھ بنا دیتا ہے۔ بے شک وہ خود جاننے والا اور خود قدرت رکھنے والا ہے۔ (الشوریٰ۔ ۴۹تا۵۰)

                اور زمین میں ایک دوسرے سے ملے ہوئے ٹکڑے (جزیرے) ہیں اور انگور کے باغ ہیں جن میں بعض تو ایسے ہیں کہ ایک تنے سے اوپر جا کر دو تنے ہو جاتے ہیں اور بعض دو تنے نہیں ہوتے۔ اور سب کو ایک ہی طرح کا پانی دیا جاتا ہے۔ اور ہم ایک کو دوسرے پر پھلوں میں فوقیت دیتے ہیں۔ ان باتوں میں سمجھداروں کے لئے دلائل موجود ہیں۔ (الرعد۔ ۴)

                کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر اس چیز کو جو آسمانوں اور زمین میں ہے تمہارے لئے مسخر کر دیا ہے۔ اور تم پراپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں مکمل فرما دی ہیں۔ (لقمان۔ ۲۰)

                خدا کی کاریگری میں تم کو کہیں جھول نظر نہیں آئے گا۔ نظر الٹ الٹ کر دیکھو کیا تمہیں کہیں دراڑ یا خرابی دکھائی دیتی ہے۔ (الملک۔ ۳)

Topics


نورنبوت نور الٰہی-V1

خواجہ شمس الدین عظیمی

زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور لازوال عیش ہے۔