Topics
نورِ الٰہی
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا
ہے:
ترجمہ:’’اور جو شخص اپنے نفس کے بخل
سے بچایا گیا۔ سو ایسے ہی لوگ مراد کو پہنچنے والے ہیں‘‘۔
(سورۂ الحشر آیت۔9)
ایک اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ:’’اور بخل تو سب ہی کی طبیعت میں
ہوتا ہے۔ اور اگر تم نیکوکاری اور پرہیز گاری اختیار کرو تو خدا تمہارے کاموں سے خبردار
ہے‘‘۔ (سورۂ النساء آیت۔ 128)
آپ ذرا لالچ، طمع اور ہوسِ زر کی بندشوں
کو توڑ کر تو دیکھئے……کتنا سکون ملتا ہے۔ دنیا کا کوئی آدمی بُرا نہیں ہوتا، خیالات
اچھے یا بُرے ہوتے ہیں۔ آپ کے پاس اگر دولت ہے تو اُسے اللہ کی راہ میں روتی اور کراہتی
ہوئی مخلوق پر خرچ کیجئے۔ جو کچھ آپ کے پاس ہے اس پر شکر بجا لایئے اور جو کچھ نہیں
ہے اُس پر کڑھئے نہیں۔ احساس کمتری سے خود کو دور رکھئے۔ قدر و منزلت، شرافت و نجابت
کا معیار دولت نہیں، آدمی کے پاکیزہ خیالات ہیں۔
نورِ نبوت
حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ
سے روایت ہے کہ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
’’اصل دولت مندی دل کے اندر ہوتی ہے
اور اصل دولت مندی دل کی بے نیازی ہے‘‘۔
استغناء ایک ایسی طرز فکر ہے جس میں
آدمی فانی اور مادی چیزوں سے توجہ ہٹا کر حقیقی اور لافانی چیزوں میں تفکر کرتا ہے۔
یہ تفکر قدم بہ قدم چلا کر کسی بندے کو غیب میں داخل کر دیتا ہے، تو سب سے پہلے اس
کے اندر یقین پیدا ہوتا ہے۔ جیسے ہی یقین کی کرن دماغ میں پھوٹتی ہے، وہ نظر کام کرنے
لگتی ہے جو نظر غیب کا مشاہدہ کرتی ہے۔ غیب میں مشاہدے کے بعد کسی بندے پر جب یہ راز
منکشف ہو جاتا ہے کہ ساری کائنات کی باگ ڈور ایک واحد ہستی کے ہاتھ میں ہے تو اس کا
تمام تر ذہنی رجحان اُس ذات پر مرکوز ہو جاتا ہے اور اس مرکزیت کے بعد استغناء کا درخت
آدمی کے اندر شاخ در شاخ پھیلتا رہتا ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ
ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور
مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی
اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان
کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو
اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں
تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ
باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب
سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور
لازوال عیش ہے۔