Topics

مئی1987؁ء۔تباع سنت

مذہب کا جب تذکرہ آتا ہے تو مسلمان اس بات پر اصرار کرتا ہے کہ سنت کی پیروی مذہب اسلام ہے اور اتباع سنت ہی اپنے پیغمبر کی محبت کی سب سے بڑی علامت ہے کیونکہ اگر محبوب کا ہر عمل محبوب نہیں ہے تو محبت میں صداقت نہیں ہے۔ اتباع سنت کی غرض و غایت صرف محبت کا اظہار ہی نہیں بلکہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہر عمل کی تقلید کرنا ہے۔

                اللہ کے ارشاد کے مطابق ہم محب رسول بن کر محبوب خدا بن جاتے ہیں۔

                اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو۔ اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا۔ (القرآن)

                اتباع سنت کے بارے میں بلاشبہ تفکر سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ اتباع سنت سے مراد محض چند اعمال کی پیروی کرنا نہیں ہے۔ ظاہر اعمال و عبادات کے مقابلے میں ان کے اندر حقیقت بھی تلاش کرنا چاہئے۔ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ ارکان ظاہری ہیں۔ ان ارکان ظاہری میں اگر تذکیہ نفس اور تصفیہ باطن نہ ہو تو دل کی پاکیزگی اور نفس کی صفائی حاصل نہیں ہوتی۔ نفس کی صفائی اور دل کی پاکیزگی ہی معرفت الٰہی اور تقرب ربانی کی راہبر ہے اور یہی عمل روحانی ترقی اور باطنی اصلاح کی معراج ہے۔

                اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں پس جو کوئی اپنے پروردگار سے ملنے کا آرزومند ہے اسے چاہئے کہ اپنے اللہ کی عبادت میں کسی کو شریک نہ ٹھہرائے۔ کیا کوئی ایک آدمی بھی اس بات کا دعویٰ کر سکتا ہے کہ پروردگار کے ملنے کا عمل رسمی عبادت سے پورا ہو سکتا ہے۔ یا رسمی عبادت کے صلے یا کسی جسمانی ریاضت کے نتیجے میں یا محض ظاہری اتباع سنت سے کوئی بندہ اللہ تک پہنچ سکتا ہے۔ اتباع سنت سے اللہ تک رسائی کے لئے اطمینان قلب کی ضرورت ہے جو رسول اللہﷺ کے کامل اخلاق کی پیروی کے بغیر ممکن نہیں ہے اگر ہم سچے دل سے مذہب کو مانتے ہیں۔ اگر ہم خلوص نیت سے سنت نبویﷺ پر چلنا چاہتے ہیں۔ اگر فی الواقع رحمت اللعالمین کے حبیب اللہ رب العالمین سے ملنے کے آرزو مند ہیں تو ہم کو اتباع سنت میں پورا پورا داخل ہونا پڑے گا۔

                ہمارا حال یہ ہے کہ ہم رسول اللہﷺ کے ان اعمال کو یا ان باتوں پر عمل کر کے اتباع سنت میں داخل ہونا چاہتے ہیں جو ہمارے لئے آسان ہے۔ ہم چند آسان اور سرسری باتوں کو تمام سنت نبویﷺ میں محیط کر دینا چاہتے ہیں۔ گویا رسول اللہﷺ کی ساری خوبیوں کا خلاصہ یہی چند سنتیں ہیں۔

                کیا اتباع سنت یہی ہے کہ ہم خوان پر کھانا کھانے سے پرہیز کریں کیونکہ کبھی آپ نے ایسا نہیں کیا۔ لیکن کبھی اس بات کا بھی بھولے سے بھی خیال نہیں کریں کہ آپ کی غذا کیا تھی اور جو کچھ تھی وہ کس وجہ سے تھی۔ چمچے کے استعمال سے پرہیز مگر کھانا لذیذ سے لذیذ اور پر تکلف سے پرتکلف اور حلق تک ٹھونس لینا اور اپنے بھائیوں اور فاقہ زدوں سے ایسی لاپروائی اور بے اعتنائی برتنا کہ جیسے انکا زمین پر وجود ہی نہیں۔ پائنچے ٹخنوں سے ذرا نیچے ہو جائیں تو گناہ کبیرہ لیکن اگر لباس کبر و نخوت ریاح اور نمائش کا ذریعہ بن جائے تو کوئی اعتراض نہیں۔ یہ کون سا اسلام ہے کہ ہم نمازیں قائم کریں مگر برائیوں سے باز نہ آئیں۔ روزے رکھیں مگر صبر کے بجائے حرص و حوس، غصہ، بدمزاجی کا مظاہرہ کریں۔ جب کہ رسول اللہﷺ کی تعلیم ہمیں بتاتی ہے کہ کسی بندے کی ایک غیبت کرنے سے روزہ نماز اور وضو سب کچھ فاسد ہو جاتا ہے۔

                اتباع سنت کا اتنا چرچا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ بندہ سراپا رسول اللہﷺ کی محبت میں غرق ہے۔ مگر جب عملی زندگی سامنے آتی ہے تو سمجھ میں نہیں آتا کہ مسلمان کونسی سنت کا اتباع کر رہا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی گھریلو زندگی کا تذکرہ آتا ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ کے گھر میں بستر ایک بوریا تھا اور چمڑے کے تکیے میں کھجور کے پتے بھرے ہوئے تھے۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ کے پاس کبھی سات برتنوں سے زیادہ آٹھواں برتن نہیں ہوا۔ ہم جب رسول اللہﷺ کی اس عملی زندگی کے مقابلے میں اپنا گھر دیکھتے ہیں۔ گھر میں آسائش و آرام کے لئے فوم کے گدے صوفے سیٹ قالین وی سی آر، ٹی وی سیٹ اور برتنوں کے انبار دیکھتے ہیں تو ہمیں شرم کیوں نہیں آتی کہ ہم کس اتباع سنت کا تذکرہ کر رہے ہیں۔

                ہمارے ہاں خدا کے فضل سے ایسے بزرگ بھی موجود ہیں۔ ہمیشہ روزے رکھتے ہیں اور جن کی نماز قضا نہیں ہوتی اور وہ اتباع سنت کا بھی بہت زیادہ خیال کرتے ہیں لیکن ان میں ایسے اصحاب بہت کم ہیں جن کو اپنے گھر میں رسول اللہ کی مزاج اور طبیعت کے خلاف کوئی واقعہ پیش نہ آتا ہو۔ ایسے حضرات بہت کم ہیں جن کو خلاف مزاج بات پر غصہ نہ آتا ہو جو اپنے خادم پر خفا نہ ہوتے ہوں جو کسی پسند میں خود کو اپنے بھائی پر ترجیح نہ دیتے ہوں جو اپنی نیکو کاری پر مغرور ہو کر کسی دوسرے کو حقیر نہ سمجھتے ہوں۔

                یہی وہ اعمال و افعال ہیں جن کو دیکھ کر ہماری نسل مذہب سے بیزار ہو گئی ہے۔ مصلحین قوم نے باطنی محاسن پیدا کرنے پر زور دینے کی بجائے رسمی باتوں پر زور دیا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ ہمارے بزرگوں میں ظاہر داری اور حقیقی نیکیاں کم تھیں مگر اب ہم سے وہ حقیقی نیکیاں بھی دور ہو رہی ہیں۔ ہم بزرگ جو کچھ کہتے ہیں ہمارا عمل اس کے مطابق نہیں ہوتا۔ ہم چاہتے یہ ہیں کہ ہماری نسل ٹی وی نہ دیکھے، گانے نہ سنے۔ اور اپنی نسل سے یہ توقع بھی رکھتے ہیں کہ ہماری نوجوان نسل رسول اللہ کی محبت میں سنت کی پیروی کرے مگر ہماری ظاہری اور باطنی زندگی اس کے برعکس ہے یہی وجہ ہے کہ نوجوان نسل مذہب سے دور ہو رہی ہے۔

                ہم بوڑھوں اور بزرگوں پر یہ فرض ہے کہ ہم اپنی خواہشات کو اپنے مذہب پر قربان کر دیں۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو مسلمانوں کا لُٹا پُٹا یہ کارواں رفتہ رفتہ معدوم ہو جائے گا۔

                آیئے! دعا کریں۔ اے نفس! خواب و غفلت سے بیدار ہو۔ نشہ نخوت سے ہوش میں آ۔ حق ناشناسی کو چھوڑ حق شناس بن جا تو اس بات کو کیوں یاد نہیں رکھتا کہ بہت جلد تجھے ایک بہت بڑے حاکم کے سامنے حاضر ہونا ہے۔ جہاں تیرے اندر موجود کتاب تجھے بتائے گی کہ تو نے زندگی بھر کیا کچھ کیا ہے۔ یہ وہی کتاب ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے کتاب المرقوم کہا ہے اور اس کتاب میں علیین اور سجیین زندگی بھر کے ایک ایک کام ایک ایک خیال ایک ایک منٹ کا ریکارڈ ہے۔

                اے نفس! اس بڑے حاکم کے سامنے جب تو پیش ہو گا تیرے اعضا تیرے خلاف شہادت دیں گے۔ اس دنیا میں ظاہرا عمل کے پردوں میں تو اپنی بدباطنی کو کتنا ہی چھپا لے لیکن اس بڑے حاکم کے سامنے تیرا ہر مخفی ارادہ اور ہر پوشیدہ عمل ظاہر ہو جائے گا۔ ریاء و تصنع کا پردہ اٹھ جائے گا جہاں اعمال افعال خود کلام کریں گے اور جب ایسا ہو گا تو اے نفس تیرے ہر عمل وہ عمل خیر ہے یا شر ہے ٹھیک ٹھیک صلہ ملے گا۔

                نفس پرستو! میرے دوستو! اللہ بڑا رحیم ہے بڑا کریم ہے معاف کرنے والا ہے مگر دانستہ غلطیاں ناقابل معافی جرم ہیں۔ اتباع سنت کے بڑے بڑے دعوے کرنے والے لوگو محض دعوئوں سے کچھ نہیں بنتا۔ اگر اخلاق نبوی اختیار کرنے میں ظاہری پابندی تو شد و مد سے کی جائے لیکن صداقت اور خلوص نہ ہو یا صرف حضور پاکﷺ کی مجموعی زندگی میں سے چند اعمال کو اختیار کر کے اتباع سنت کا دعویٰ کرنے والوں کو اللہ کبھی معاف نہیں کرے گا۔

Topics


نورنبوت نور الٰہی-V1

خواجہ شمس الدین عظیمی

زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور لازوال عیش ہے۔