Topics
’’ایسی کتنی ہی قومیں گزر چکی ہیں جنہوں نے
خدا اور انبیاء کی ہدایت کو پس پشت ڈال دیا۔ چنانچہ ہم نے ان کا شدید محاسبہ کیا
اور انہیں الم ناک عذاب دیا۔ یہ لوگ بدکاری کے نتائج سے نہ بچ سکے اور ان کی تمام
تدبیریں ناکام ہو گئیں، ابھی ایک اور درد ناک عذاب ان کا منتظر ہے۔ اے عقل والو،
سمجھ بوجھ سے کام لو۔‘‘ (التحریم)
جو
قوم اللہ کے احکامات کی نافرمانی کرتی ہے اور اللہ کی پرستش کی بجائے دولت پرستی
میں مبتلا ہو جاتی ہے، اللہ ایسی قوم کو ذلیل و خوار کر دیتا ہے۔ یہ کوئی کہانی
نہیں ہے بلکہ رُوئے زمین پر اس کی شہادتیں موجود ہیں۔ بڑی بڑی سلطنتوں کے مالک اور
محلات کے مکین نظر میں آئے لیکن ان کے عالی شان محلات آج کھنڈرات کی شکل میں
زمین پر جگہ جگہ موجود ہیں۔
’’کیا
یہ لوگ زمین میں گھوم پھر کر نہیں دیکھتے کہ پہلی اقوام کا انجام کیا ہوا۔ وہ لوگ
قوت اور تہذیب و تمدن میں ان سے برتر تھے لیکن اللہ نے انہیں ان کے گناہوں کی سزا میں
پکڑ لیا اور انہیں کوئی نہیں بچا سکا۔‘‘ (المومن)
چھوٹی
غلطیوں کو اللہ معاف کر دیتا ہے اور جب تک اللہ کے بنائے ہوئے نظام میں خلل واقع
نہ ہو، قانون قدرت لغزشوں کو نظر انداز کرتا رہتا ہے لیکن جب افراد کے غلط طرز عمل
سے خدا کی خدائی میں اضطراب پیدا ہو جاتا ہے اور اچھے لوگ بھی بے چینی کا شکار ہو
جاتے ہیں تو خدا کا قاہرانہ نظام متحرک ہو جاتا ہے اور قوم درد ناک عذاب میں
گرفتار ہو جاتی ہے۔ اللہ کا قانون ایسے افراد سے اقتدار چھین لیتا ہے اور یہ افراد
یا قوم غلام بن جاتی ہے اس لئے کہ قوم نے خود دولت کا غلام بن کر اپنے لئے عارضی
اور مٹ جانے والی چیز کی غلامی پسند کر لی تھی۔
آج
کا ہمارا دور بلاشبہ دولت پرستی کا دور ہے۔ کون کہہ سکتا ہے کہ دولت پرستی اور بت
پرستی دو الگ الگ طرز عمل ہیں۔ پتھروں کو پوجنا یا سونے کو پوجنا ایک ہی بات ہے،
بت بھی اللہ کی مخلوق پتھروں اور مٹی سے تخلیق کئے جاتے ہیں اور سونا چاندی بھی
مٹی کی بدلی ہوئی ایک شکل کا نام ہے۔ سونے چاندی اور جواہرات کی محبت نے قوم کو اس
حد تک اندھا کر دیا ہے کہ شرافت اور خاندان کا معیار ہی دولت بن گیا ہے۔ ہوس زر کا
عالم یہ ہے کہ ہماری تمام انسانی قدریں پامال ہو چکی ہیں۔ خاندانی اخلاق، اسلاف کی
نجابت، قومی روایات اب ملبہ کا ڈھیر بن گئی ہیں۔ موت کے بعد زندگی سے یقین اٹھ گیا
ہے۔ ساری قوم ’’بابرؔ بہ عیز کوش کہ عالم دوبارہ نیست‘‘ کی تفسیر بن گئی ہے۔
روحانی قدروں کو ذبح کر کے اخلاقی برائیوں کو جنم دیا جا رہا ہے۔ اللہ کے اس فرمان
کی کھلی خلاف ورزی کی جاری ہے۔
’’اللہ
کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ پکڑ لو اور آپس میں تفرقہ نہ ڈالو۔‘‘
اللہ
کے بندے جب اس کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں تو قوم کانوں میں روئی اور منہ میں
گھنگھنیاں ڈال کر بیٹھ جاتی ہے۔ قوم کے نیک باطن افراد آنسو بہاتے ہیں اور شیطان
اپنی کامرانی پر قہقہے لگاتا ہے۔
’’ہم
نے ہر ایک کو اس کے اعمال کے مطابق سزا دی بعض پر پتھروں کا مینہ برسایا، کسی کو
کڑک نے دبوچ لیا، کچھ کو زمین نے نگل لیا اور کچھ کو سمندر کی لہروں نے تہِ آب کر
دیا۔ ہم نے ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ یہ خود اپنی تباہی کے ذمے دار ہیں۔‘‘
(العنکبوت)
آج
کے انسان نے مال و زر کو زندگی کا مقصد بنا لیا ہے اور اس دولت سے بڑی بڑی حویلیاں
اور محلات تعمیر کرنا ہی فخر کا باعث بن گیا ہے لیکن ہم نہیں سوچتے کہ آج سے پہلے
بھی قوموں نے خوبصورت محلات کو اپنی معراج سمجھ لیا تھا۔ ایسے ایسے لوگ ہو گزرے
ہیں جن کی فکر و تدبیر سے ظلم و ستم سے اور دنیاوی جاہ و حشم سے، کبر و نخوت سے
دنیا دہل جاتی تھی لیکن جب قدرت کی گرفت ان کے اوپر مضبو ط ہو گئی اور ان کے اوپر
سے عفو و درگذر کا سایہ اٹھ گیا تو یہ سب مٹی میں مل گئے۔ آج ہم مٹی کے ان ہی ذرات
کو پیروں میں روندتے پھرتے ہیں۔
’’وہ
لوگ کتنی ہی جنتیں، چشمے، کھیتیاں، بلند منازل اور نعمتیں جن سے فائدہ اٹھاتے تھے
چھوڑ کر چلے گئے۔‘‘ (القرآن)
اللہ
کے قانون سے انحراف کرنے کی ہزار سزائیں ہمارے سامنے ہیں:
نئے
نئے موذی امراض کی یلغار ہے، سب کچھ ہوتے ہوئے ہر شخص افلاس کے شکنجے میں جکڑا ہوا
ہے، اولاد نالائق ہے یا والدین نالائق قرار دیئے جا رہے ہیں، قوم بصارت اور بصیرت
سے محروم ہو رہی ہے۔ دماغی عارضے آج جتنے عام ہیں اتنے کبھی نہیں تھے، موت ایک
کھیل تماشہ بن گئی ہے۔ ذرا زور سے دل دھڑکا اور آدمی لحد میں اتر گیا۔ عدم تحفظ
کا عالم یہ ہے کہ پتہ بھی ہلے تو دل سینے کی دیوار سے باہر آ جانا چاہتا ہے۔ گھر
میں میاں بیوی کی توتکار سے نوجوان نسل شادی کے بندھن کو بوجھ سمجھنے لگی ہے۔
وسائل کے انبار ہونے کے باوجود روزی تنگ ہو گئی ہے۔
’’جو
لوگ میرے احکام کو بھول جائیں گے، ہم یہاں ان کی روزی تنگ کر دیں گے اور قیامت میں
انہیں اندھا بنا کر اٹھائیں گے۔‘‘ (طٰہٰ)
خواجہ شمس الدین عظیمی
زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ
ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور
مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی
اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان
کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو
اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں
تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ
باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب
سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور
لازوال عیش ہے۔