Topics
جس شخص کی روح میں فطری طور پر انسلاخ
واقع ہوتا ہے اس کو لطائف کے رنگین کرنے کی جدوجہد میں کوئی خاص کام نہیں کرنا
پڑتا یعنی کسی خاص واقعہ یا حادثہ کے تحت جو محض ذہنی فکر کی حدود میں رونما ہوا
ہے، اس کے باطن میں توحید افعالی منکشف ہو جاتی ہے۔ وہ ظاہری اور باطنی طور پر کسی
علامت کے ذریعے یا کوئی نشانی دیکھ کر یہ سمجھ جاتا ہے کہ پس پردہ نور غیب میں ایک
تحقق موجود ہے اور اس تحقق کے اشارے پر عالم مخفی کی دنیا کام کر رہی ہے اور اس
عالم مخفی کے اعمال و حرکات و سکنات کا سایہ یہ کائنات ہے۔ قرآن پاک میں جہاں اس
کا تذکرہ ہے کہ اللہ اسے اُچک لیتا ہے وہ اس ہی کی طرف اشارہ ہے۔
ذات
باری تعالیٰ سے نوع انسانی یا نوع اجنہ کا ربط دو طرح پر ہے۔ ایک طرح جذب کہلاتی
ہے اور دوسری طرح علم۔ صحابۂ کرامؓ کے دور میں اور قرون اُولٰی میں جن لوگوں کو
مرتبۂ احسان حاصل تھا، ان کے لطائف حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی محبت سے رنگین
تھے۔ انہیں ان دونوں قسم کے ربط کا زیادہ علم نہیں تھا۔ ان کی توجہ زیادہ تر حضور
علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق غور و فکر میں صرف ہوتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں
نے روحانی قدروں کے جائزے زیادہ نہیں لئے کیونکہ ان کی روحانی تشنگی حضور علیہ
الصلوٰۃ والسلام کے اقوال پر توجہ صرف کرنے سے رفع ہو جاتی تھی۔ ان کو احادیث میں
بہت زیادہ شغف تھا۔ اس انہماک کی بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ ان لوگوں کے ذہن میں
احادیث کی صحیح ادبیت، ٹھیک ٹھیک مفہوم اور پوری گہرائیاں موجود تھیں۔ احادیث
پڑھنے کے بعد اور احادیث سننے کے بعد وہ احادیث کے انوار سے پورا استفادہ کرتے
تھے۔ اس طرح انہیں الفاظ کے نوری تمثلات کی تلاش کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ وہ الفاظ
کے نوری تمثلات سے، بغیر کسی تعلیم اور بغیر کسی کوشش کے، روشناس تھے۔
(لوح
و قلم)
خواجہ شمس الدین عظیمی
زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ
ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور
مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی
اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان
کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو
اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں
تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ
باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب
سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور
لازوال عیش ہے۔