Topics
’’اور میرے بندوں سے کہہ دو کہ
بولیں تو اچھی بات بولیں۔ بلاشبہ شیطان (بُری بات سے) ان میں فساد ڈلواتا ہے۔ بے شک
شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے‘‘۔ (سورہ بنی
اسرائیل۔ آیت 53)
’’اور درمیانی چال چلو اور اپنی آواز
دھیمی رکھو۔ بے شک تمام آوازوں سے بُری آواز گدھوں کی آواز ہے‘‘۔ (سورہ لقمان آیت۔ 19)
گفتگو میں آدمی کا عکس جھلکتا ہے۔ خوش
آواز آدمی کے لئے اس کی آواز تسخیر کا کام کرتی ہے۔ جب بھی کسی مجلس میں یا نجی
محفل میں بات کرنے کی ضرورت پیش آئے تو وقار اور سنجیدگی کے ساتھ گفتگو کیجئے۔مسکراتے
ہوئے نرمی کے ساتھ میٹھے لہجے میں بات کرنے والے لوگوں کو مخلوق عزیز رکھتی ہے۔ چیخ
کر بولنے سے اعصاب میں کھنچائو Tensionپیدا ہوتا ہے اور اعصابی
کھنچائو سے بالآخر آدمی دماغی مریض بن جاتا ہے۔
حضور نبی کریمﷺ نہایت آسان انداز اور
نرم لہجے میں لوگوں سے گفتگو کیا کرتے تھے۔ جو باتیں ضروری اور اہم ہوتی تھیں انہیں
آپﷺ تین مرتبہ دہراتے تھے تا کہ ہر شخص بات کی اہمیت سے واقف ہو جائے۔ آپﷺ ہر شخص
سے اس کی صلاحیت اور عقل و مزاج کے مطابق گفتگو کیا کرتے تھے اس کے ساتھ آپﷺ اپنے
ساتھیوں کو بھی بار بار یہ ہدایت فرماتے تھے ’’تم لوگوں سے ان کی عقل کے مطابق گفتگو
کیا کرو‘‘۔
ایک مرتبہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ’’ایسی
گفتگو جو لوگوں کی عقل سے باہر ہو بعض اوقات ان کے لئے فتنہ بن جاتی ہے‘‘۔
بعض لوگ تیز طرار ہوتے ہیں اور گفتگو
سے دوسروں کو زچ کر دیتے ہیں۔ ایسے لوگ بعض اوقات دوسرے آدمی کی صحیح رائے کو بھی
غلط ثابت کر دیتے ہیں۔ رسول اللہﷺ نے ایسی گفتگو کو سخت ناپسند فرمایا ہے۔ آپﷺ کا
ارشاد ہے:
’’تم میرے پاس اپنے دعوے لے کر آتے
ہو۔ ہو سکتا ہے کہ تم میں سے بعض تیز و طرار ہوں اور مدّلل تقریر کرنے والے ہوں۔ اس
صورت میں بھی ممکن ہے کہ میں ایسے شخص کے حق میں فیصلہ کر دوں۔ تو بھی تمہیں وہ چیز
ہرگز نہیں لینی چاہئے جو حقیقت میں تمہارے بھائی کی ہو۔ اگر جانتے بوجھتے اس چیز کو
ہتھیانا چاہتے ہو تو سمجھ لو کہ تم محض آگ کے ٹکڑے جمع کر رہے ہو‘‘۔
بُری باتوں اور گالم گلوچ سے زبان گندی
مت کیجئے۔ چغلی نہ کھایئے۔ چغلی کرنا ایسا ہے کہ جیسے کوئی بھائی اپنے بھائی کا گوشت
کھاتا ہو۔ دوسروں کی نقلیں نہ اتاریئے۔ اس عمل سے دماغ میں کثافت اور تاریکی پیدا ہوتی
ہے۔ شکایتیں نہ کیجئے کہ شکایت محبت کی قینچی ہے۔
ایک دوسرے کی چھوٹی چھوٹی باتوں کو نظر
انداز کرنے کا حوصلہ پیدا کیجئے……یہ رویہ درست نہیں کہ اُس نے یوں کہہ دیا اس لئے میرے
اقتدار کو ٹھیس پہنچ گئی……آپ اپنی اولاد، ماں باپ اور بہن بھائیوں کے ساتھ جو رویہ
اپناتے ہیں اور جس طرح حسن سلوک کرتے ہیں وہی حسن سلوک اپنے دینی و روحانی بہن بھائیوں
کے ساتھ ہونا چاہئے۔ گھر میں بچے غلطیاں کرتے ہیں……بڑے نظر انداز کر دیتے ہیں اُن پر
چڑھ دوڑتے نہیں ورنہ بچے بھی باغی ہو جاتے ہیں……اسی طرح بڑے بوڑھے چڑچڑے ہو جاتے ہیں
تو اُن کی اس چڑچڑے پن کی وجہ سے ہم انہیں گھر سے نہیں نکال باہر کرتے……دوسری بات یہ
ہے کہ ہمارے معاشرے میں نمبر بنانے کی خرابی بہت زیادہ ہے، ایک آدمی نے اچھا کام کیا……دوسرے
آدمی نے کچھ کم اچھا کام کیا اب کیا ہوتا ہے کہ وہ کم اچھا کرنے والا بندہ اچھے کام
کرنے والے کی بُرائی کرنے لگتا ہے……اُس کے درپے آزار ہو جاتا ہے……ہماری تعلیمات تو
یہ ہیں کہ یہ نہ دیکھو کہ کون کیا ہے؟ یہ دیکھو کہ اُس نے کیا کام کیا ہے؟ اگر اتنا
ظرف نہیں کہ بندے کی قدر کر سکو تو بھائی اُس کے کام کی ہی قدر کر لو……اگر ایک آدمی
باصلاحیت ہے اور وہ تعمیری کام کا جذبہ رکھتا ہے لیکن اگر آپ کو اس کے ساتھ ذہنی اختلاف
ہے تو اس اختلاف کو ایک طرف رکھ دو اُس کے تعمیری کام کی قدر کرو، اُس کی تعریف کرو،
اُس کو حوصلہ دو اور اُ سے آگے بڑھائو۔
آج کل مسلمانوں میں یہ بات بہت عام
ہے کہ وہ ایک دوسرے کی غلطیوں پر پردہ پوشی کرنے اور ایک دوسرے کو حوصلہ دینے کی بجائے
ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچتے رہتے ہیں۔ سلسلہ عظیمیہ اور تمام روحانی سلاسل کے کارکنان
کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس منفی طرز فکر سے باہر نکلیں اور اس رویے کو اپنے اندر فروغ
دیں جس سے ایک دوسرے کو سپورٹ ملے۔ اس طرح آپ کو پیغمبرانہ طرز فکر منتقل ہو سکے گی۔
پیغمبرانہ طرز فکر یہ ہے کہ پیغمبر اور نبی کسی کو نیچا نہیں دکھانا چاہتے وہ ہمیشہ
دوسروں کو اوپر اٹھاتے ہیں اس لئے کہ خود وہ عاجزی و انکساری کا پیکر ہوتے ہیں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ
ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور
مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی
اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان
کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو
اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں
تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ
باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب
سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور
لازوال عیش ہے۔