Topics
دنیا میں کوئی مکتبۂ فکر ایسا نہیں ہے جس
نے حصول علم کی ضرورت اور اہمیت پر زور نہ دیا ہو۔ تمام مکاتب فکر کی بنیاد ہی دراصل
علم ہے۔ اسلامیات میں علم کو انبیاء علیہم السلام کی میراث بتایا جاتا ہے۔ اور حصول
علم کو عورت اور مرد دونوں پر لازم قرار دیا گیا ہے اور ہر حال و قال میں حاصل کرنے
کا حکم ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے کہ علم حاصل کرنا ہر مسلمان عورت
اور مرد پر فرض ہے۔ ایک اور موقع پر فرمایا۔ علم حاصل کرو خواہ اس کے لئے چین جانا
پڑے۔
وہ
کون سا علم ہے جس کی طرف خالق کائنات اور اس کے حبیب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا
اشارہ ہے اور فرض قرار دیا گیا ہے؟ کیا وہ قرآن و حدیث، اسلامی شریعت اور فقہی مسائل
کا علم ہے یا کچھ اور……؟ حصول علم چونکہ فرض ہے اس لئے وضاحت ضروری ہے۔
علم
خواہ دینی ہو یا دنیاوی دونوں کا حصول ضروری ہے۔ قرآن پاک کے اس باب میں جو کچھ بیان
ہوا ہے۔ اس کے بغور مطالعے سے علم کے تین مدارج سامنے آتے ہیں۔
پہلے
درجے میں ان علوم پر بحث کی گئی ہے جو حیات قبل از زندگی یعنی پیدائش سے پہلے کی زندگی
سے متعلق ہے۔ یعنی آدمی پیدا ہونے سے پہلے کہاں تھا اور پیدائش سے پہلے اس پر کیا
کیفیات گزریںجن مراحل سے گزر کر وہ اس دنیا میں آیا۔
تیسرے
درجے میں ان علوم کا تذکرہ کیا گیا ہے جن کا تعلق تاریخ سے ہے۔ یعنی کائنات اور یہ
دنیا کس طرح تخلیق ہوئی اور اس تخلیق کا مقصد کیا تھا؟ کتنے انبیائؑ تشریف لائے؟ قوموں
کے اچھے کاموں کے کیا نتائج مرتب ہوئے؟ اور جب اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی لوگوں کی
دل آزاری کی اور ان کو پریشان کیا تو اس کے کیا نتائج مرتب ہوئے؟ فکری اور مادی ارتاء
درجہ بدرجہ کس طرح ممکن ہوا؟ لوگوں نے اللہ کی تخلیقات، اجزائے کائنات اور اس کے نظام
میں کس طرح غور و فکر کیا؟ اور اس غور و فکر کے نتیجے میں کس طرح اور کیا ترقی ہوئی؟
جس
کو عرف عام میں سائنس کہتے ہیں۔ وہ دراصل تسخیر کائنات کا علم ہے۔ سائنسی علوم کے حصول
کی کوششیں انسان نے ہر دور میں کی ہیں۔ تا کہ وہ کائنات کو تسخیر کرنے کی اپنی ازلی
خواہش کی کسی طرح تکمیل کر سکے۔
دور
جدید میں سائنس نے قرآن پاک کی اس آیت کہ ’’ہم نے تمہارے لئے مسخر کر دیا تابع کر
دیا جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمینوں میں ہے سب کا سب‘‘ کے ضمن میں کئی قدم
آگے بڑھائے ہیں۔ تیسرے درجے ہی میں شریعت یعنی آداب معاشرت کا تذکرہ ملتا ہے کہ انسان
کس طرح زندگی گزارے۔ اس کا رہن سہن کیسا ہو، آپس کے تعلقات کیسے ہوں، لین دین کیسا
ہو، گفتگو کیسی ہو، اٹھنا بیٹھنا کیسا ہو، ہمسایوں سے سلوک کیسا ہو، والدین اور بیوی
بچوں سے کس طرح پیش آئے۔
جہاں
تک سائنسی علوم اور ایجادات کا تعلق ہے تو سائنس کے ابتدائی دور کی اکثر بڑی ایجادات
ہمارے اسلاف نے کیں۔ مثلاً گھڑی مسلمانوں نے ایجاد کی، پانی کا جہاز مسلمانوں نے بنایا،
زمین کی پیمائش مسلمانوں نے کی، دوربین مسلمانوں نے ایجاد کی۔ اسی طرح بہت سی سائنسی
ایجادات کا سہرا مسلمانوں کے سر ہے۔ لیکن جب دوسری قومیں اس طرف متوجہ ہوئیں اور انہوں
نے ان علوم کا مطالعہ کیا اس کو پڑھا، سمجھا اور اس پر غور و فکر کیا۔ جس کے نتیجے
میں وہ لوگ آگے نکل گئے۔ اور مسلمان پیچھے رہ گئے۔ پہلے مسلمان حاکم تھے وہ محکوم
اب وہ حاکم ہیں اور ہم محکوم۔
حضور
علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس ارشاد پر کہ علم حاصل کرو خواہ اس کے لئے چین جانا پڑے،
اگر غور کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ظاہر ہے اس دور میں چین میں اسلامیات
کی تعلیم نہیں دی جاتی تھی کہ لوگ قرآن و حدیث اور فقہی مسائل سیکھنے کے لئے چین جاتے۔
بلکہ وہ علوم سیکھنے کے لئے چین جانا پڑتا جو اس وقت وہاں میسر تھے۔ اس دور میں چین
کو ترقی کے لحاظ سے اقوام عالم میں ایک ممتاز حیثیت حاصل تھی اور وہ سائنسی ایجادات
میں سب سے آگے تھا۔ اس نے کاغذ ایجاد کر لیا تھا، اس نے روشنائی ایجاد کر لی تھی۔
اور یہ چیزیں ساری دنیا میں کہیں اور نہیں تھیں۔
قرآن
و حدیث میں حصول علم کے احکامات کی وضاحت سے یہ معنی نکلے کہ علم کوئی بھی ہو اس کو
سیکھنا ضروری ہے۔ خواہ وہ دنیاوی علوم ہوں یا دنیوی، ان کو حاصل کرنا اشد ضروری ہے۔
مثلاً ہم دنیوی علم سیکھ لیں۔ قرآن و حدیث اور فقہی مسائل معلوم کر لیں لیکن سائنسی
علوم، معاشرتی علوم، طب و جراحت، تجارت، تاریخ، سیاسیات کا علم اور موچی، لوہار اور
بڑھئی وغیرہ کا کام نہ سیکھیں تو باشعور افراد ان علوم کے نہ سیکھنے کے نتائج پر غور
کر سکتے ہیں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ
ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور
مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی
اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان
کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو
اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں
تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ
باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب
سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور
لازوال عیش ہے۔