Topics

مئی1991؁۔آواز

جب سے آدم اس زمین پر آیا ہے اس وقت سے آواز الفاظ میں منتقل ہو رہی ہے۔ شروع شروع میں گفتگو کا طریقہ یہ تھا کہ ایک دوسرے کو اشاروں سے متوجہ کر کے اپنا مافی الضمیر بیان کیا جاتا تھا۔

                اس طریقہ میں بھی خو، خا، ہا، شش، ہاں، ہوں جیسے الفاظ کے ساتھ ساتھ گردن حرکت میں رہتی تھی جیسے جیسے زمانہ گزرتا رہا اشاروں میں الفاظ کا عمل دخل زیادہ ہوتا رہا لوگوں نے چیزوں کے نام رکھنا شروع کر دیئے اور ہر دو سو میل کے فاصلے پر زبان الگ الگ بنتی رہی۔ زندگی کے تقاضوں سے آدم جیسے جیسے واقف ہوتا رہا تکمیل عدم تکمیل خوشی ناخوشی، محرومی اور اطمینان کی کیفیت سے آدم مانوس ہوتا چلا گیا۔ خوشی اور ناخوشی کی کیفیت نے آدم کے اندر حواس کی درجہ بندی کی۔

                جب آدم نے کرخت آواز سنی تو دماغ میں ناگواری پیدا ہوئی۔

                سریلی اور شیریں آواز سے اس کے اندر طمانیت کا احساس اجاگر ہوا ۔اشارات، الفاظ اور کیفیات سے گزر کر آدم کے اندر وہ شعور بیدار ہوا۔ جس شعور نے اسے خود سے اور اپنے علاوہ دوسری مخلوقات سے متعارف کرا دیا۔ تعارف کی درجہ بندی نے اس کے اندر صلاحیت بیدار کر دی کہ میرے علاوہ بھی مخلوق ہے۔ شعور میں زیادہ بالیدگی آئی تو یہ عقدہ کھلا کہ زندگی خیالات کے تابع ہے۔

                خیالات ہی زندگی ہیں۔ ساری کائنات ایک ہی خیال کے اوپر قائم ہے۔

                میں ہوں

                اس میں ہوں نے آدم کو جہاں خود شناسی عطا کی وہاں یہ بھی بتایا کہ

                میں ہوں

                اس وقت ’’میں ہوں‘‘ ہے جب میں نے خیال کو قبول کر کے اس میں اپنی ذات شامل کر دی۔ یعنی میں ہوں دراصل میری ذات کا ادراک ہے……               

                ذات کا ادراک

                بجائے خود اس حقیقت کی نقاب کشائی ہے کہ ……ذات الگ ہے اور ادراک الگ ہے۔

                ادراک میں گہرائی نے بتایا۔

                ایک عمل یہ یہ کہ اسے محسوس کیا جائے اور دوسرا عمل یہ ہے کہ اس محسوس کو دیکھ لیا جائے۔ دیکھنے کیلئے ضروری ہے کہ کوئی ہدف ہو۔ اس لئے کہ جب تک ہدف (Target) نہیں ہو گا۔ شئے محسوس کے دائرے سے باہر نہیں آئے گی۔

                محسوسات ایک دائرہ ہے اور اس دائرے کی مرکزیت شئے ہے۔ شئے نے جب اپنا مظاہرہ کرنا چاہتا تو وہ نظر کیلئے ہدف بن گئی۔

                نظر نے ہدف کو قبول کیا تو حواس میں تلاطم برپا ہو گیا اور حواس اس نقطہ پر جمع ہو گئے……

                ’’ہمارا وجود تابع ہے ماورائی وجود کے۔‘‘

                         وجود

                نظر…مادیت…مظہر

                ادراک……احساس

                مظہر جب ماورائی وجود سے دور ہوا تو اس کو حزن و ملال کے تاثر نے جکڑ لیا۔ اور وہ کشش ثقل میں اندر ہی اندر دھنستا چلا گیا۔ جیسے جیسے کشش ثقل کی زیادتی ہوئی لطافت کم ہوتی رہی۔ اور پھر لطافت محدود ہو کر پس پردہ چلی گئی اور کثافت غالب آ گئی۔

                اس کثافت کو کم کرنے، ختم کرنے اور اس سے آزاد ہونے کیلئے پیغمبروں نے یہ طریقہ ایجاد کیا کہ کثیف جسم کو پاک صاف کرنے کیلئے نور اور نورانی خیالات کا سہارا لیا جائے۔ کثافت کی دنیا سے منہ موڑ کر نورانی دنیا سے رشتہ جوڑنا ’’تزکیہ نفس‘‘ قرار پایا۔ تزکیہ نفس سے چونکہ قلب طاہر، پاک اور شفاف ہوتا ہے اس لئے سکون کی لہر قابض ہو جاتی ہے۔

                قانون۔ اپنے خاکستر وجود کو لطیف بنانے کیلئے کثافت کے برعکس لطیف اشیاء میں دلچسپی لی جائے۔

                ماورائی وجود……لطیف ہے روشنی ہے نور ہے۔

                لطافت، روشنی اور نور میں خود کو جذب کرنے کیلئے نور کی صفات کو اپنے اوپر غالب کرنا ہو گا۔ نور کی صفات الفاظ میں ذخیرہ ہیں۔ الفاظ حروف میں حروف کی اجتماعیت اسم ہے۔

                ر ح م ان۔ حروف ہیں۔ لیکن ان کی اجتماعیت رحمٰن ہے۔ رحمٰن صفت ہے۔ صفت نور اور روشنی ہے۔ ہم جب رحمٰن کہتے ہیں تو صفت رحمٰن کے لطیف انوار سے ہمارا وجود لطیف ہو جاتا ہے جتنا کسی اسم کا ورد کیا جائے اتنا ہی اسم کے اندر انوار سے ہمارا وجود نورانی ہو جاتا ہے۔

                سورۃ الاحزاب میں اللہ کریم فرماتا ہے:

                اے ایمان والو! اللہ کا ذکر کثرت سے کرتے رہو اور صبح شام اس کی تسبیح میں لگے رہو۔

                سورۃ اعراف میں ہے:

                اور اللہ کے اچھے اچھے نام ہیں پس ان اچھے ناموں سے اس کو پکارتے رہو۔

                اللہ کے ایک کم سو نام ہیں۔ ان ناموں کو ورد زبان رکھیئے تا کہ آپ کے اندر ان ناموں کی صفات منتقل ہوتی رہیں۔

                رحمٰن نے قرآن سکھایا، انسان کو پیدا کر کے قوت گویائی عطا کی۔

                وہی ہے جو تم پر رحمت فرماتا ہے۔ اور اس کے فرشتے تمہارے لئے دعائے رحمت کرتے ہیں۔ تا کہ وہ تمہیں تاریکیوں میں سے نکال کر روشنی میں لائے۔ وہ مومنوں پر رحم کرنے والا ہے۔

                اور اگر تم خدا کی نعمتوں کا حساب لگانا چاہو تو حساب نہیں لگا سکتے۔

                خدا کی بے شمار نعمتوں کا شمار ممکن نہیں ہے۔ انسانی زندگی کے لمحے لمحے میں خدا کی رحمت و توجہ کا نزول اور اس کی نعمتوں کی بارش مسلسل ہو رہی ہے، وہی ہے جو تم پر رحمت فرماتا ہے اور اس کے فرشتے تمہارے لئے دعا کرتے ہیں تا کہ وہ تمہیں تاریکیوں میں سے نکال کر روشنی میں لائے۔ وہ مومنوں پر رحم فرمانے والا ہے۔

                جس روز وہ اس سے ملاقات کریں گے تو ان کا استقبال سلام سے ہو گا۔ اور خدا نے ان کیلئے عزت و اکرام کا صلہ مہیا کر رکھا ہے۔

                ’’وہ تمہارے اندر ہے (اپنے اندر) کیوں نہیں دیکھتے۔‘‘

                (قرآن)

                فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے تحقیق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

                جو شخص ایذا دے میرے ولی کو۔ میں خبردار کرتا ہوں کہ میری اس کے ساتھ لڑائی ہے۔ بندہ فضل عبادت کے ساتھ میرا تقریب حاصل کرتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ میں اس کا کان بن جاتا ہوں۔ جس سے وہ سنتا ہے اور آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور ہاتھ جس سے وہ پکڑتا ہے اور پائوں جس سے وہ چلتا ہے۔ اور اگر یہ بندہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اُسے دے دیتا ہوں۔ اور اگر یہ بندہ مجھ سے پناہ مانگتا ہے تو میں اسے تحفظ فراہم کرتا ہوں۔

Topics


نورنبوت نور الٰہی-V1

خواجہ شمس الدین عظیمی

زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور لازوال عیش ہے۔