Topics

اگست 1985؁ءاللہ کی رسی

کائنات کی ساخت ہمارے سامنے اس امر کی تشریح کرتی ہے کہ جو کچھ موجود ہے وہ پہلے سے کہیں قائم ہے اور کوئی شئے ایسی نہیں ہے جس کا تعلق ماضی اور حال سے نہ ہو۔ جب ہم ماضی کا تذکرہ کرتے ہیں تو دراصل کسی شئے کے آبائو اجداد اور اسلاف کا اعتراف کرتے ہیں۔ بادام کے درخت سے اگر بات کرنا ممکن ہو جائے تو بادام کا درخت اسی طرح اپنا شجرہ بیان کرتا ہے جس طرح ایک آدم زاد اپنا شجرہ بیان کر کے خاندانی وجاہت اور وقار کی گفتگو کرتا ہے۔ ہم اس بات سے انکار نہیں کر سکتے کہ بکری کا خاندان بھی اپنی معین مقداروں اور فطرتی تقاضوں پر قائم ہے جس طرح خاندانوں، نوعوں اور مخلوق کے شجرے ہوتے ہیں یہی صورت حال نیکی اور بدی کی ہے نیکی کا بھی ایک خاندان ہے یا نیکی ایک درخت ہے اور یہ درخت جب قائم ہو جاتا ہے تو اس کے اندر ہزاروں شاخیں اور بے شمار پھول اور پتے لگتے رہتے ہیں۔ شاخوں، تنوں اور پتوں کا پھیلائو اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ ایک درخت اپنے خاندان، اپنے کنبہ اور اپنی نسل کے لئے سایہ رحمت بن جاتا ہے۔

                بسا اوقات ہم ایک برائی کو بہت کمتر اور معمولی سمجھتے ہیں لیکن جب بہت کمتر اور بظاہر حقیر نظر آنے والی برائی بیج بن کر نشوونما پاتی ہے اور درخت بن جاتی ہے تو اس درخت کے پتے، کانٹے، کریہہ رنگ پھول، خشک سیاہ اور کھردرے پتے بجھی بجھی سی اور بے رونق شاخیں پوری نوع کو غم سے آشنا کر دیتی ہیں۔ اور پھر یہ غم ضمیر کی ملامت بن کر مہلک بیماریوں کے ایسے کنبہ کو جنم دیتی ہے جس سے آدمی بچنا بھی چاہے تو نہیں بچ سکتا۔ اگر ہم واقعتاً حقیقت کو سمجھنا چاہتے ہیں اور تفکر کو اپنا شعار بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں جاننا ہو گا کہ خیر و شر کے تمام مراحل ایک کنبہ کے افراد کی طرح زندہ اور متحرک ہیں۔ نیکی کا درخت رحمت و برکت کا سایہ ہے اور بدی کا درخت، خوف اور پریشانی اور رنج و ملال کی کیفیات کو نوع انسانی پر مسلط کر دیتا ہے۔

                ہر آدمی یہ جانتا اور سمجھتا ہے کہ خاندان کے افراد جب تک مل جل کر یکجائی جذبات کے ساتھ ر ہتے ہیں ان کی ایک حیثیت ہوتی ہے ان کی اپنی ایک آواز ہوتی ہے، ان کی ایک اجتماعی قوت ہوتی ہے۔ جھاڑو کے تنکے الگ الگ کر دیئے جائیں اور ہر تنکے سے الگ الگ ضرب لگائی جائے، چاہے اس کی تعداد ایک ہزار تک ہو۔ چوٹ نہیں لگے گی اور نہ عمل سے کوئی مفید نتیجہ مرتب ہو گا لیکن ان ایک ہزار تنکوں کو ایک جگہ باندھ کر ضرب لگائی جائے تو  جسم پر نیل پڑ جائے گا۔

                اسی طرح ملت اسلامیہ کی شیرازہ بندی کی طرف قرآن ہمیں متوجہ کرتا ہے۔ ایک خاندان ایک کنبہ اور ایک بڑے درخت کی طرح مسلمانوں کو ہدایت کرتا ہے کہ سب متحد ہو کر مضبوطی کے ساتھ اللہ کی رسی کو پکڑ لیں اور بکھر کر اپنی شیرازہ بندی کو ختم نہ کریں۔ قرآن پاک کی اس ہدایت کا تقاضہ ہے کہ اسلام کے نام لیوائوں کے درمیان جتنے بھی اختلافات ہوں انہیں قرآن کی ہدایت کے مطابق اللہ کی رسی کو سہارا بنا کر ختم کر دیا جائے لیکن وائے نصیب!……

                بدقسمتی سے ہمارا المیہ یہ ہے کہ قرآن کے بارے میں مسلمان متفق نہیں ہیں ایک ایک آیت کی تاویل میں بیشمار اقوال ہیں اور ان اقوال میں سے اکثر ایک دوسرے کے متضاد ہیں……تفاسیر کا مطالعہ کر کے کوئی صاحب نظر بندہ کسی ایک راستہ پر قدم نہیں اٹھا سکتا۔ جبکہ مفسرین کرام کے پاس کوئی سند ایسی نہیں ہے جس کی بنیاد پر یہ فیصلہ کیا جا سکے کہ ان میں سے کون سا قول حق ہے……اس طرز عمل کا نتیجہ یہ نکلا کہ اختلافات کا درخت تناور، گھنا اور لمبا ہو گیا۔ کل جو درخت ایسا تھا جس کے نیچے بمشکل چند افراد قیام کر سکتے تھے آج اس درخت کے نیچے پوری قوم خواب خرگوش میں گم ہے۔

                ہم جب اپنے اسلاف کے دور کو دیکھتے ہیں اور ان کے گرد و پیش کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس بات کے واضح اشارے ملتے ہیں کہ ان کے اندر اجتماعی حیثیت برقرار تھی۔ اور قرآن پاک کے لطیف اشارات اور مخفی کنایات اور اسرار و رموز سمجھ لینے میں انہیں کوئی زحمت پیش نہیں آتی تھیاورجب مسلمان قوم کی اجتماعی حیثیت متاثر ہوئی اور نیکی کے درخت کی جگہ برائی (اختلافات) کے درخت نے لے لی تو مسلمان خاندان افراد میں بٹ گیا اور قرآن کی حکمت اور انوار سے محروم ہو گیا۔

                اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

                ’’اللہ کی رسی کو باہم متحد ہو کر مضبوطی کے ساتھ پکڑ لو اور آپس میں تفرقہ نہ ڈالو۔‘‘

                اللہ پروردگار کی بنائی ہوئی یہ ساری کائنات اور نوع انسانی اللہ کی تخلیق ہے۔ ایک ماں کے سات، نو یا بارہ بچے اس کی تخلیق ہے کوئی ماں یہ نہیں چاہتی کہ اس کی اولاد آپس میں لڑتی جھگڑتی رہے۔ ماں کا فطری تقاضا ہے کہ اولاد باہم متحد ہو کر ماں کی ممتا کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ پکڑے رہے اور ماں کی مرکزیت کبھی ختم نہ ہو……تمثیلی اعتبار سے اللہ بھی ایک ماں ہے۔ اللہ کی ربوبیت، اللہ کی مامتا اور نوع انسانی کے ساتھ اللہ کی محبت چاہتی ہے کہ سارے انسان ایک کنبہ کے افراد بن کر اللہ کی سرزمین پر خوش ہو کر کھائیں پئیں۔ بلاشبہ مخلوق کی خوشی اللہ رب العالمین کی خوشی ہے۔

Topics


نورنبوت نور الٰہی-V1

خواجہ شمس الدین عظیمی

زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور لازوال عیش ہے۔