Topics
ارشاد خداوندی ہے:
ترجمہ: ’’(لوگو) تم کو (مال کی) بہت
سی طلب نے غافل کر دیا، یہاں تک کہ تم نے قبریں جا دیکھیں‘‘۔
(سورۂ التکاثر۔ آیت 2)
انفرادی حدود میں دولت پرستی کی بیماری
آدمی کی انا اور اس کی ذات سے گُھن بن کر چپک جاتی ہے اور خالق کی عطا کی ہوئی صلاحیتوں
کو زنگ آلود کر دیتی ہے یوں آدمی کے باطن میں ایک شیطانی وجود پرورش پانے لگتا ہے
جو لمحہ بہ لمحہ بڑا ہو کر اس کو اپنی ذات کی گرفت میں لے لیتا ہے اور آدمی کی بہترین
تخلیقی صلاحیتیں دولت کی حفاظت میں صَرف ہو جاتی ہیں۔ اگر دولت پرستی کا مرض معاشرہ
میں پھیل جائے تو قوم کے افراد ایک دوسرے کے حق میں بھیڑیئے بن جاتے ہیں۔ آدمی کے
لباس میں یہ درندے جب موقع ملتا ہے جھپٹ کر دوسرے کو شکار کر لیتے ہیں۔ یہ لوگ معاشرے
میں طرح طرح کے قوانین اور رسول کو رواج دے کر نچلے طبقہ کا خون چوستے رہتے ہیں۔
قانونِ قدرت سرمایہ پرستی اور لالچ کو
کبھی پسند نہیں کرتا، وہ ایسی قوموں کو غلامی، ذلت اور افلاس کے عمیق غار میں دھکیل
دیتا ہے۔
نورِ نبوت
حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم
نے فرمایا:
’’اچھے دوست کی مثال ایسی ہے جیسے مُشک
بیچنے والے کی دکان کہ کچھ فائدہ نہ بھی ہو تو خوشبو تو ضرور آئے گی اور بُرا دوست
ایسا ہے جیسے بھٹّی سے آگ نہ لگے تب بھی دھوئیں سے کپڑے تو ضرور کالے ہو جائیں گے‘‘۔
دوستوں کے انتخاب میں اس بات کو پیش
نظر رکھئے کہ جس سے آپ تعلق بڑھا رہے ہیں اس کے رجحانات اور اس کی سوچ کیسی ہے؟……اس
کے خیالات تعمیری اور صحت مند ہیں یا نہیں؟……اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم
کے معاملے میں اس کے اندر کتنا ایثار ہے؟……
دوستی کو مستحکم قدروں پر چلانے اور
تعلقات کو نتیجہ خیز اور استوار کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اپنے دوستوں کے معاملات میں
دلچسپی لیں اور ان کے مسائل کو اپنے مسائل سمجھ کر ان کو حل کرنے میں بھرپور تعاون
اور جدوجہد کریں۔ خیر خواہی اور دلجوئی کا تقاضہ ہے کہ آپ اپنے دوست کی زیادہ سے زیادہ
حوصلہ افزائی کریں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ
ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور
مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی
اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان
کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو
اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں
تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ
باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب
سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور
لازوال عیش ہے۔