Topics
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: ’’اور بہت سے چہرے اُس دن غبار
آلود ہوں گے۔ جن پر سیاہی چڑھی ہوئی ہو گی۔ وہ یہی کافر اور بدکار لوگ ہوں گے‘‘۔ (سورۂ عبس۔ 42-40)
جو لوگ خود غرضی اور ہر قسم کے نفسانی
جذبات کی یلغار میں گھرے رہتے ہیں، یہ سفلی جذبات ان کو اپنا معمول بنا لیتے ہیں۔ کفر
اور خود پرستی بالآخر ان پر جمود طاری کر دیتی ہے اور جب وہ زندگی کے اُس دور میں
قدم رکھتے ہیں جہاں یہ جذبات جبّلی طور پر از خود سرد پڑ جاتے ہیں تو ان کے اوپر ایک
ختم نہ ہونے والی کیفیت مسلط ہو جاتی ہے۔ اس کیفیت سے نبرد آزما ہونے کے لئے وہ ایسے
طریقے اختیار کرتے ہیں جن طریقوں میں دوسرے لوگوں کے لئے کچھ نہیں ہوتا۔
ان کے اندر اس طرز فکر کی چھاپ اتنی
گہری ہو جاتی ہے کہ ان کے چہرے مسخ اور بے نور ہو جاتے ہیں۔
نورِ نبوت
سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ارشاد
فرماتے ہیں:
’’مومن کی حالت بھی عجب ہوتی ہے وہ جس
حال میں بھی ہوتا ہے، اس سے خیر اور بھلائی ہی سمیٹتا ہے‘‘۔
دراصل مومن ہر حالت میں ثابت قدم رہتا
ہے۔ کیسے ہی حالات کیوں نہ ہوں وہ کبھی نااُمیدی کی دلدل میں نہیں پھنستا۔ اللہ کا
شکر ادا کرنا اُس کا شعار ہوتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ جس طرح خوشی کا زمانہ آتا ہے اسی
طرح مصائب کا دور آنا ایک ردِ عمل ہے۔ وہ آزمائش کے زمانے میں جدوجہد اور عمل کے
راستے کو ترک نہیں کرتا کیونکہ اس کی پوری زندگی ایک مہم اور جدوجہد ہوتی ہے۔ ہم جانتے
ہیں کہ سکون اور خوشی کوئی خارجی شئے نہیں ہے۔ یہ ایک اندرونی کیفیت ہے۔ اس اندرونی
کیفیت سے جب کوئی بندہ آشنا ہو جاتا ہے تو سکون و اطمینان کی اس کے اوپر بارش ہونے
لگتی ہے۔ ایسا بندہ ہمہ گیر طرز فکر سے آشنا ہو کر مصیبتوں، پریشانیوں اور عذاب ناک
زندگی سے رستگاری حاصل کر کے اس حقیقی مسرت اور شادمانی سے واقف ہو جاتا ہے جو اللہ
کے بندوں کا حق اور ورثہ ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ
ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور
مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی
اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان
کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو
اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں
تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ
باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب
سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور
لازوال عیش ہے۔