Topics

مارچ1998؁ء۔دولت پرستی

آدمی ہمیشہ سے مال و دولت کا بھوکا اور آسائشوں کا طلب گار رہا ہے۔ دولت سمیٹنے کی دُھن ہمیشہ اس کے اوپر سوار رہتی ہے۔ آدم کی اولاد نے ہر جائز و ناجائز طریقے سے دولت اکٹھا کرنے کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا ہے۔ وہ شعور کی حالت میں داخل ہونے سے قبر کا منہ دیکھنے تک دولت اکٹھا کرنے کی دوڑ میں بے لگام گھوڑے کی طرح دوڑتا رہتا ہے۔

                ’’تمہیں ایک دوسرے سے آگے بڑھ جانے کی خواہش نے غفلت میں رکھا یہاں تک کہ تم نے قبریں جا دیکھیں۔‘‘ (قرآن)

                انفرادی حدود میں دولت پرستی کی بیماری آدمی کی انا اور اس کی ذات سے گھُن بن کر چپک جاتی ہے۔ اس کی انسانی صفات کو چاٹتی رہتی ہے اور خالق ک ی عطا کی ہوئی صلاحیتوں کو زنگ آلود کر دیتی ہے۔ آدمی کے باطن میں ایک شیطانی وجود پرورش پانے لگتا ہے جو لمحہ بہ لمحہ بڑا ہو کر اس کی ذات کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ آدمی کی بہترین تخلیقی صلاحیتیں دولت کی حفاظت میں ضائع ہو جاتی ہیں۔ اگر دولت پرستی کا مرض معاشرہ میں پھیل جائے تو قوم کے افراد ایک دوسرے کے حق میں بھیڑیئے بن جاتے ہیں۔ آدمی کے لباسوں میں یہ درندے جب موقع ملتا ہے جھپٹ کر دوسرے کا شکار کر لیتے ہیں۔ یہ لوگ معاشرے میں طرح طرح کے قوانین اور رسوم کو رواج دے کر نچلے قبطہ کا خون چُوستے رہتے ہیں۔ قانون قدرت، سرمایہ پرستی اور لالچ کو کبھی پسند نہیں کرتا۔ وہ ایسی قوموں کو غلامی، ذلت اور افلاس کے عمیق غار میں دھکیل دیتا ہے۔

                قرآن پاک سرمایہ پرستوں کے اس اولین دعوے پر کاری ضرب لگاتا ہے کہ ان کی کمائی اور ان کی دولت ان کی سبز مندی کا نتیجہ ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ تمہارا یہ خیال کہ رزق کا حصول اور اس کی پیدائش تمہارے زور بازو کا نتیجہ ہے۔ ایک خام خیال ہے۔ فطرت کے قوانین اور اس کے وسائل خود تمہارے لئے مسلسل رزق کی بہم رسانی میں مصروف ہیں۔ سمندروں سے پانی بخارات کی شکل میں زمین پر برستا ہے اور زمین کی مردہ صلاحیتوں میں جان ڈال کر اسے وسائل کی تخلیق کے قابل بنا دیتا ہے۔ زمین طرح طرح کی پیداوار کو جنم دے کر انسان کی پرورش کرتی ہے اور اس کی زندگی کے قیام کے وسائل فراہم کرتی ہے۔ ہوا، سورج کی روشنی اوربہت سے دوسرے عوامل اس دوران فصلوں کو بارآور کرنے میں سرگرم رہتے ہیں اور بلامعاوضہ آدمی کی خدمت کرتے ہیں۔ رزق اور وسائل کے حصول اور عمل میں انسان کی کوشش صرف ہاتھ بڑھا کر روزی حاصل کر لینا ہے۔

                حضور سرور کائناتﷺ نے جو صفات حمیدہ کے بہترین مظہر اور تکمیل انسانیت کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز تھے، کبھی دولت کے ارتکاز کو پسند نہیں فرمایا ہمیشہ اسے لوگوں کی بھلائی کے لئے خرچ کیا۔ کوئی ضرورت مند آپﷺ کے دربار سے خالی ہاتھ واپس نہیں لوٹا۔ اگر آپﷺ کے پاس کچھ بھی نہ ہو تو آپﷺ اپنی ضرورت کی اشیاء گروی رکھوا کر سائل کی مدد فرماتے۔ تمام عمر یتیموں، بیوائوں اور حاجت مندوں کی سرپرستی حضور اکرمﷺ کا شیوہ رہی۔

                ہادیٔ برحق نے اپنے پاس مال و زر جمع نہ ہونے کا اتنا اہتمام فرمایا کہ صبح کا درہم شام تک کبھی اپنے پاس نہیں رکھا۔ حضرت ابوذر غفاریؓ کو نصیحت کرتے ہوئے آپﷺ نے فرمایا:

                ’’اے ابوذر! مجھے یہ پسند نہیں کہ میرے پاس اُحد کے پہاڑ کے برابر سونا ہو اور تیسرے دن تک اس میں سے ایک اشرفی بھی میرے پاس باقی رہ جائے مگر یہ کہ کسی قرض کے ادا کرنے کو رکھ چھوڑوں۔ میں کہوں گا کہ اس کو خدا کے بندوں میں ایسے ایسے داہنے بائیں اور پیچھے بانٹ دو۔‘‘

                ایک مرتبہ حضورﷺ نے یہ آیت پڑھی الھٰکم التکاثر پھر فرمایا۔ آدم کے بیٹے کا یہ حال ہے کہ کہتا ہے کہ میرا مال ، میرا مال۔ اور تیرا مال تو وہی ہے جو تو نے صدقہ کیا اور آگے بھیج دیا۔ کھا لیا تو اس کو فنا کر چکا اور پہن لیا تو اس کو پرانا کر چکا۔

                حضورﷺ نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ:

                ’’اے آدم کے بیٹے! تیرا دینا تیرے لئے بہتر اور تیرا رکھ چھوڑنا تیرے لئے بُرا ہے۔‘‘

                حضرت ابو سعید خدریؓ کا بیان ہے کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا۔ ’’جس کے پاس سواری کے لئے زائد اونٹ ہو وہ اسے دے دے جس کے پاس سواری نہیں۔ جس کے پاس زائد زاد راہ ہو وہ اسے دے دے جس کے پاس زاد راہ نہیں۔‘‘

                حضرت ابوسعیدؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ اسی طرح مختلف اموال کا ذکر فرماتے رہے حتیٰ کہ ہم نے محسوس کر لیا کہ ضرورت سے زائد مال رکھنے کا ہم میں سے کسی کو حق نہیں ہے۔

                نبوت کی اس تعلیم نے ایک ایسے معاشرے کی تشکیل کی جس کا ہر فرد دوسرے کا مددگار اور سرپرست تھا اور جس میں لوگ اپنی کمائی کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے لئے بے چین رہتے تھے۔ وہ ایسے مواقع کی تلاش میں رہتے تھے کہ جس سے ان کی کمائی مستحقین تک پہنچ جائے۔

Topics


نورنبوت نور الٰہی-V1

خواجہ شمس الدین عظیمی

زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور لازوال عیش ہے۔