Topics

جنوری1981؁ء۔بچوں کی تربیت

عامرؓ ایک بار حضرت عمرؓ سے ملنے کے لئے ان کے گھر گئے تو دیکھا کہ حضرت عمرؓ لیٹے ہوئے ہیں اور بچے ان کے سینے پر چڑھے ہوئے کھیل رہے ہیں۔ اُن کو یہ بات بہت گراں گزری۔

                امیر الومنین نے ان کی پیشانی پر بَل دیکھ کر فرمایا۔’’ آپ اپنے بچوں کے ساتھ کیسا برتائو کرتے ہیں؟‘‘

                عامرؓ نے کہا۔’’ جب میں گھر میں داخل ہوتا ہوں تو گھر والوں پر سکتہ طاری ہو جاتا ہے۔ اور سب دم بخود ہو جاتے ہیں‘‘۔

                حضرت عمرؓ نے بڑے سوز کے ساتھ فرمایا۔ ’’عامر! امت محمدیہﷺ کا فرزند ہوتے ہوئے تم یہ جانتے کہ مسلمان کو اپنے گھر والوں کے ساتھ کس طرح نرمی اور محبت کا سلوک کرنا چاہئے۔‘‘

                ماں پر بچے کا حق یہ ہوتا ہے کہ اسے دودھ پلایا جائے۔ قرآن پاک نے ماں کا یہی احسان یاد دلایا کہ ماں کے ساتھ غیر معمولی حسن سلوک کی تاکید کی ہے۔ بچہ نو مہینے تک ماں کے خون سے پیٹ میں پرورش پاتا ہے۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ بچے وہی ذہن اور وہی خیالات اپناتے ہیں جو ماں کے دماغ میں گردش کرتے رہتے ہیں۔ ماں کا فرض یہ ہے کہ وہ بچے کو اپنے دودھ کے ایک ایک قطرے کے ساتھ اللہ اور اس کے رسولﷺ کے طرز عمل کا سبق دیتی رہے۔ دودھ کے ہر گھونٹ کے ساتھ نبیﷺ برحق کا عشق اور دین کی محبت بھی اس کے سراپا میں اس طرح انڈیل دے کہ قلب و روح میں اللہ کی عظمت اور رسول اللہﷺ کی محبت رچ بس جائے۔ اس خوشگوار فریضہ کو انجام دے کر جو روحانی سکون و سرور حاصل ہوتا ہے اس کا اندازہ ان ہی مائوں کو ہوتا ہے جو اپنے بچوں کی پرورش حق کے ساتھ کرتی ہیں۔

                بچوں کو ڈرانے سے پرہیز کرنا چاہئے کیوں کہ ابتدائی عمر کا یہ ڈر ساری زندگی پر محیط ہو جاتا ہے۔ اور ایسے بچے زندگی میں کوئی بڑا کارنامہ انجام دینے کے لائق نہیں رہتے۔ اولاد کو بات بات پر ڈانٹنے، جھڑکنے اور بُرا بھلا کہنے سے بچے خوف زدہ ہو جاتے ہیں۔ اس کے برعکس شفقت و محبت اور نرمی کے برتائو سے اولاد کے اندر اطاعت و فرماں برداری کے جذبات نشوونما پا کر اولاد کو باسعادت کرتے ہیں۔

                اولاد والدین کے کمر کی ٹیک، بڑھاپے کا سہارا اور خاندان کا وقار ہے۔ اور پوری نوع انسانی کا سرمایہ ہے!

                ماں باپ کا وجود اولاد کے لئے سایہ فگن آسمان کی طرح ہے۔ اگر وہ کچھ مطالبہ کریں تو ان کو خوب دیجئے۔ وہ دل گرفتہ ہوں تو ان کا غم دور کیجئے۔ ان پر ناقابل برداشت بوجھ نہ بنئے کہ وہ آپ کی زندگی سے اُکتا جائیں۔ آپ کی موت کی تمنا کریں اور آپ کے قرب کو دوری سے بدل دیں۔

                اپنے بچوں کو حسب مراتب گود میں لیجئے۔ پیار کیجئے، شفقت سے ان کے سر پر ہاتھ پھیریئے۔ تند خو اور سخت گیر ماں باپ سے بچے ابتدائً سہم جاتے ہیں اور پھر نفرت کرنے لگتے ہیں۔ والہانہ جذبۂ محبت سے ان کے اندر خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے اور ان کی فطری نشوونما پر خوش گوار اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

                اولاد کو ضائع نہ کیجئے، اولاد کو اپنے اوپر بوجھ نہ سمجھئے۔ معاشی تنگی کی وجہ سے کبھی نہ سوچئے کہ یہ سب اولاد کی وجہ سے ہے۔

                خالق کائنات کا فرمان ہے:

                ’’اور اپنی اولاد کو فقر و فاقہ کے خوف سے قتل نہ کرو۔ ہم ون کو بھی رزق دیں گے اور ہم تمہیں بھی رزق دے رہے ہیں۔‘‘


                دراصل صالح اولاد ہی آپ کے بعد آپ کی تہذیبی روایات، دینی تعلیمات اور پیغام توحید کو زندہ رکھنے کا ذریعہ ہے اور مومن نیک اولاد کی آرزوئیں اسی لئے کرتا ہے کہ وہ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پیغام کو زندہ رکھے گی۔

                دوسروں کے سامنے اپنے بچوں کے عیب بیان نہ کیجئے اور نہ کسی کے سامنے ان کو شرمندہ کیجئے۔ ان کی عزت نفس کے آپ محافظ ہیں۔ بچوں کے سامنے ان کی اصلاح سے مایوسی کا اظہار بچوں میں احساس کمتری پیدا کر دیتا ہے یا پھر ان کے اندر ضد اور غصہ بھر جاتا ہے کہ جب ہم خراب اور ناقابل اصلاح ہیں تو اب خراب ہو کر ہی دکھائیں گے۔ بچے کہانیاں سن کر بہت خوش ہوتے ہیں اور انہیں جو کچھ سنایا جاتا ہے وہ ان کے حافظہ میں محفوظ ہو جاتا ہے۔ نہایت پیار و اُنسیت کے ساتھ سنایئے اور ان سے سنئے بھی۔ ہزار مصروفیتوں کے باوجود ان کے لئے وقت نکالئے۔ جب بچے خوش ہوں انہیں بتایئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بچوں سے والہانہ محبت کرتے تھے، بچوں کو دیکھ کر حضورﷺ کا چہرۂ انور گلنار ہو جاتا تھا۔

                ایک مرتبہ ہمارے پیارے نبیﷺ حضرت حسنؓ کو پیار کر رہے تھے۔ ایک بدو کو یہ دیکھ کر تعجب ہوا اور کہا۔ ’’یا رسول اللہﷺ! آپ بھی بچوں کو پیار کرتے ہیں۔ میرے دس بچے ہیں لیکن میں نے کبھی کسی کو پیار نہیں کیا۔‘‘

                رحمت اللعالمین کے چہرۂ مبارک پر ناگواری ظاہر ہوئی اور فرمایا۔’’اگر خدا نے تمہارے دل سے رحمت و شفقت کو نکال دیا ہے تو میں کیا کر سکتا ہوں!‘‘

                بے جا لاڈ پیار سے بچے ضدی اور خود سر بن جاتے ہیں۔ ہر جا و بے جا ضد پوری کرنے کی بجائے تحمل اور بردباری کے ساتھ کوشش کیجئے، یہ عادت ختم ہو جائے گی۔

                اللہ تعالیٰ نے کرخت آواز کو ناپسند کیا ہے۔ بچوں کے سامنے چیخے چلایئے نہیں کیوںکہ بچے یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ گلا پھاڑ کر زور سے بولنا بھی کوئی قابل تعریف کام ہے۔ نرمی اور خوش گفتاری اور دھیمے لہجے میں ماں باپ جب بات کرتے ہیں تو بچوں کا لہجہ خود بخود نرم اور شیریں ہو جاتا ہے۔

                عادت ڈالئے کہ بچے اپنا کام اپنے ہاتھ سے کریں۔ نوکروں کا سہارا بچوں کو کاہل اور سست اور اپاہج بنا دیتا ہے۔ ان کے اندر زندگی کے گرم و سرد حالات سے نبرد آزما ہونے کی ہمت نہیں رہتی۔ ایسے بچے جفاکش اور محنت کوش نہیں ہوتے۔

                کبھی کبھی اپنے بچوں کے ہاتھ سے غریبوں اور مساکین کو کھانا، پیسہ، کپڑا بھی دلوایئے تا کہ ان کے اندر غریبوں کے ساتھ سلوک، سخاوت اور خیرات کا جذبہ پیدا ہو۔ ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایئے۔ ان کے منہ میں نوالے دیجئے۔ ان سے بھی کہئیے کہ وہ اپنے بہن بھائیوں کو اپنے ہاتھ سے کھلائیں۔ اس عل سے حقوق العباد کا احساس اور انصاف کے تقاضے اپنی پوری رعنائیوں کے ساتھ قالب انسان میں نمو پاتے ہیں۔

                جائیداد میں لڑکی کا حصہ پوری دیانت داری اور اہتمام کے ساتھ دینا خدا نے فرض کیا ہے۔ اس میں اپنی طرف سے کمی بیشی کرنے کا کسی کو اختیار نہیں۔ لڑکی کا حصہ دینے میں حیلہ جوئی سے کام لینا خیانت ہے اور اللہ کے دین کی توہین کرنا ہے۔

                والدین کی دعائیں اولاد کے حق میں قبول ہوتی ہیں۔ اولاد کیسی بھی ہو ماں باپ کی آنکھوں کا نور ہوتی ہے۔۔ سوز و گداز اور دل جمعی کے ساتھ اولاد کے حق میں دعا کرنا ماں باپ کی عادت ہوتی ہے۔ خدائے رحمان و رحیم دل کی گہرائیوں سے نکلی ہوئی دعائیں ضائع نہیں کرتا۔

Topics


نورنبوت نور الٰہی-V1

خواجہ شمس الدین عظیمی

زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور لازوال عیش ہے۔