Topics
گناہوں کی ہیبت ناک دلدل میں پھنسی
ہوئی کوئی قوم جب اپنے گناہوں پر نادم اور اشکبار ہو کر خدا کی طرف جذبۂ بندگی کے
ساتھ پلٹتی ہے اور اپنی لغزشوں، کوتاہیوں، چھوٹی بڑی خطائوں کی گندگی کو ندامت کے
آنسوئوں سے دھو کر پھر خدا سے عہد وفا استوار کرتی ہے تو اس والہانہ طرز عمل کو
قرآن توبہ کے لفظ سے تعبیر کرتا ہے اور یہی توبہ استغفار ہر طرح کے فتنہ و فساد،
خوف و دہشت اور عدم تحفظ کے احساس سے محفوظ رہنے کا حقیقی علاج ہے۔ اور اگر اس کے
برخلاف بندہ گناہوں اور کوتاہیوں کی طرف توجہ نہیں دیتا۔ یہ شیطانی عمل آدمی کو
کھوکھلا کر دیتا ہے اور دین و دنیا میں رسوائیاں اس کا مقدر بن جاتی ہیں اور پھر جب
یہ عمل اس کی زندگی پر محیط ہو جاتا ہے تو آدم زاد کے قلوب پر، کانوں پر مہر لگا
دی جاتی ہے اور آنکھوں پر پردے ڈال دیئے جاتے ہیں۔ اور یہ انتہائی صورت حال
بلاشبہ عذاب الیم ہے اور یہ عذاب مایوسی، بدحالی، خوف و ہیبت بن کر اس کے اوپر
مسلط ہو جاتا ہے۔
سورہ
الشوریٰ میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ:
’’اور
تم پر جو مصائب آتے ہیں وہ تمہارے ہی کرتوتوں کا نتیجہ ہیں اور خدا تو بہت سی
خطائوں سے درگذر کرتا رہتا ہے۔‘‘
قرآن
پاک نے اس کا علاج بھی بتا دیا ہے:
’’اور
تم سب مل کر خدا کی طرف پلٹو! اے مومنو! تا کہ تم فلاح پائو۔‘‘
جس
قوم میں خیانت اور بے ایمانی در آتی ہے اس قوم کے دلوں میں دشمن کا خوف بیٹھ جاتا
ہے۔ وہ وسوسوں اور توہمات میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ ناپ تول میں کمی، ذخیرہ اندوزی،
اسمگلنگ کا رواج ظاہر طور پر کتنا ہی خوشنما نظر آئے لیکن بالآخر اس کا نتیجہ
قحط اور فاقہ کشی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔
توبہ
استغفار کے ساتھ اپنے اللہ، خالق حقیقی کی طرف رجوع ہو کر یہ عزم کیجئے کہ ہم اپنے
اور ملت کے اندر سے ان روگوں کو ختم کر کے دم لیں گے۔
خوشی
انسان کیلئے ایک طبعی تقاضہ اور فطری ضرورت ہے۔ اسلام یہ نہیں چاہتا کہ مسلمان
مصنوعی وقار، غیر فطری سنجیدگی، مردہ دلی اور افسردگی سے قوم کے کردار کی کوشش کو
ختم کر دیں۔ اسلام چاہتا ہے کہ مسلمان بلند حوصلوں، نت نئے ولولوں اور نئی نئی
امنگوں کے ساتھ تازہ دم رہ کر اپنا وقار بلند رکھیں۔
قوم
کے کسی فرد کو علم و فضل میں کمال حاصل ہو، کوئی عزیز دوست یا رشتہ دار دروازے کے
سفر سے واپس آئے، کوئی معزز مہمان آپ کے گھر میں رونق افروز ہو۔ شادی بیاہ یا
بچے کی ولادت کی تقریب ہو، کسی عزیز کو اللہ تعالیٰ صحت عا کریں، کوئی خبر ایسی ہو
جس میں اسلام کی فتح و نصرت کی کوشخبری ہو، کوئی تہوار ہو تو ایسے تمام مواقع پر
بھرپور خوشی کا اظہار کرنا ایک مسلمان کا فرض ہے۔ اسلام نہ صرف خوش رہنے اور خوشی
منانے کی اجازت دیتا ہے بلکہ اس کو عین دینداری قرار دیتا ہے۔
حضرت
عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ عید کا دن تھا۔ کچھ کنیزیں بیٹھی اشعار گا رہی تھیں کہ
اسی دوران حضرت ابو بکرؓ تشریف لے آئے۔
بولے۔’’نبی
کے گھر میں یہ گانا بجانا کیسا؟‘‘
نبی
برحق صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
’’ابوبکر!
رہنے دو۔ ہر قوم کے لئے تہوار کا ایک دن ہوتا ہے اور آج ہماری عید کا دن ہے۔‘‘
ایک
مرتبہ تہوار کے دن کچھ حبشی بازیگر کرتب دکھا رہے تھے۔ آپﷺ نے یہ کرتب خود بھی
دیکھے اور حضرت عائشہؓ کو بھی دکھائے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان بازیگروں کو
شاباش بھی دی۔
خوش
رہنا اور دوسروں کو خوش رکھنا مسلمان کا اخلاقی کردار ہے۔ مسلمان کی شان یہ ہے کہ
وہ خوشی میں بھی اسلامی و روحانی ذوق اور حفظ مراتب کا خیال رکھتا ہے۔
جب
اسے کسی سے خوشی ملتی ہے تو اس بندہ کا صدق دل سے شکر ادا کرتا ہے۔ خوشی کے ہیجان
میں ایسا کوئی عمل یا رویہ اختیار نہیں کرتا جو رسول اللہﷺ کی تعلیمات کے خلاف ہو۔
ہر حال میں اعتدال کا راستہ اس کے سامنے رہتا ہے۔ خوشی میں وہ اتنا مست و بے خود
نہیں ہو جاتا کہ اس سے فخر و غرور کا اظہار ہونے لگے، نیاز مندی اور بندگی کے
جذبات دبنے لگیں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ
ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور
مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی
اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان
کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو
اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں
تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ
باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب
سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور
لازوال عیش ہے۔