Topics
اگر ہم چاہتے ہیں کہ دوسرا شخص ہمارا
ہم نوا بن جائے تو ہمیں اس شخص سے قریب ہونا ہو گا۔ اس کے رجحانات کا اندازہ کر کے
اور اس کی ذہنی صلاحیتوں کو مدنظر رکھ کر اس سے بات کرنی ہو گی۔ اس کے ذاتی
معاملات میں اگر وہ چاہتا ہے تو تعاون کر کے، اس کی ہمدردیاں حاصل کرنا ہوں گی۔
خدمت اور قلبی لگائو ایک ایسا عمل ہے کہ آدمی نہ چاہتے ہوئے بھی دوست بن جاتا ہے۔
اپنے مذہب کی تبلیغ حکمت کے ساتھ کیجئے۔ جس مسلک اور جس عقیدہ پر وہ قائم ہے براہ
راست اس پر تنقید و تبصرہ نہ کیجئے۔ پہلے کوشش کی جائے کہ وہ آپ کو اپنا ہمدرد
اور محسن سمجھے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ دامے، درمے، قدمے، سخنے اس کی خدمت کی
جائے۔ جب آپ کے اوپر اس کا اعتماد بحال ہو جائے، نہایت نرم اور شیریں لہجے میں
اسے نصیحت کیجئے۔ کوئی بات سمجھنے کے لئے وہ بحث مباحثہ کرے تو اپنے مقدور بھر اس
کے سوالات کا شافی جواب دیجئے۔ بات کرتے وقت مخاطب کی صلاحیت کو ہرگز نظر انداز نہ
کیجئے۔ تبلیغ کی گراں بہا دولت کو جلد بازی، نادانی اور جھنجھلاہٹ سے ضائع نہ
کیجئے۔ ہر طبقے، ہر گروہ اور ہر فرد سے اس کی فکری رسائی، استعداد، صلاحیت، ذہنی
کیفیت اور سماجی حیثیت کے مطابق بات کیجئے اور ان حقیقتوں کو باہم افہام و تفہیم
کے ساتھ دعوت کی بنیاد بنایئے جن میں اتفاق ہو اور جو آپس میں رشتہ محبت کی راہ
ہموار کریں۔ اگر آپ تنقید کریں تو یہ عمل تعمیری ہو، اخلاص و مروت کی آئینہ دار
ہو۔ ضد، ہٹ دھرمی، نفرت اور تعصب کے جذبات سے ہمیشہ اپنا دامن بچائے رکھئے اور
جہاں یہ کیفیتیں پیدا ہوتی نظر آئیں، اپنی زبان بند کر لیجئے اور اس محفل سے اٹھ
آیئے۔
قرآن
کریم فرماتا ہے:
’’اپنے
رب کے راستے کی طرف دعوت دیجئے حکمت کے ساتھ، عمدہ نصیحت کے ساتھ اور مباحثہ کیجئے
تو ایسے طریقے پر جو انتہائی بھلا ہو۔‘‘…(النمل)
حضرت
انسؓ کا بیان ہے کہ مجھے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے تاکید فرمائی ہے کہ پیارے
بیٹے! جب تم اپنے گھر میں داخل ہوا کرو تو پہلے گھر والوں کو سلام کیا کرو۔ یہ
تمہارے گھر والوں کے لئے خیر و برکت کی بات ہے۔
حضرت
اسماء انصاریہؓ فرماتی ہیں کہ میں اپنی سہیلیوں میں بیٹھی ہوئی تھی کہ نبی صلی
اللہ علیہ و سلم کا ہمارے پاس سے گزر ہوا تو آپﷺ نے ہم لوگوں کو سلام کیا۔
حضرت
اُم ہانیؓ فرماتی ہیں کہ میں نبی حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئی۔
میں نے آپﷺ کو سلام کیا تو آپﷺ نے دریافت فرمایا۔ ’’کون ہے‘‘ میں نے عرض کیا کہ
میں اُم ہانی ہوں۔ فرمایا۔ ’’خوش آمدید!‘‘
ہمارے
آقا، اللہ کے محبوبﷺ کا ارشاد ہے:
’’میں
تمہیں ایسی تدبیر بتاتا ہوں جس کو اختیار کرنے سے تمہارے مابین دوستی اور محبت بڑھ
جائے گی۔ آپس میں کثرت سے ایک دوسرے کو سلام کیا کرو۔‘‘
آپﷺ
نے یہ بھی فرمایا ہے کہ سلام کو خوب پھلائو، خدا تم کو سلامت رکھے گا۔
ہر
مسلمان کے اوپر دوسرے مسلمان کا یہ حق ہے کہ وہ جب بھی اپنے بھائی سے ملے اسے سلام
کرے۔ رول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس کثرت سے سلام کیا کرتے تھے کہ اگر کسی وقت
آپﷺ کے ساتھی درخت کی اوٹ میں ہو جاتے اور پھر سامنے آتے تو رسول اللہﷺ پھر سلام
کرتے۔
ارشاد
ہے:
’’وہ
آدمی خدا سے زیادہ قریب ہے جو سلام کرنے میں پہل کرتا ہے۔‘‘
آپﷺ
نے فرمایا:
’’کسی
مسلمان کے لئے یہ بات جائز نہیں کہ وہ اپنے مسلمان بھائی سے تین دن سے زیادہ تک
قطع تعلق کئے رہے کہ جب ملیں تو ایک ادھر کترا جائے اور دوسرا ادھر۔ ان میں افضل
وہ ہے جو سلام میں پہل کرے۔‘‘
السلام
علیکم ہمیشہ زبان سے کہئے اور ذرا اونچی آواز میں سلام کیجئے تا کہ وہ شخص سُن
سکے جس کو آپ سلام کر رہے ہیں۔ البتہ اگر کہیں زبان سے السلام علیکم کہنے کے ساتھ
ساتھ ہاتھ یا سر سے اشارہ کرنے کی ضرورت ہو تو کوئی مضائقہ نہیں مثلاً آپ جس کو
سلام کر رہے ہیں وہ دور ہے اور آپ کے ذہن میں یہ بات ہے کہ آپ کی آواز وہاں تک نہیں
پہنچ سکے گی یا کوئی بہرا ہے اور آپ کی آواز نہیں سن سکتا، ایسی صورت حال میں
سلام کے ساتھ ہاتھ یا سر سے اشارہ بھی کیجئے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ
ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور
مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی
اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان
کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو
اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں
تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ
باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب
سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور
لازوال عیش ہے۔