Topics

جون1996؁ء۔ پختہ ایمان

بندہ کے اندر جب ایمان پختہ یعنی یقین کی دنیا روشن ہو جاتی ہے تو وہ دشمنوں کے شر سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ وسوسے اور شیطانی افکار اس کے قریب نہیں آتے۔ ایسے بندوں کے اوپر سلامتی کی راہیں کھل جاتی ہیں اور اس کی ذہنی صلاحیتیں بحال ہو جاتی ہیں۔ اس کے اندر بالیدگی پیدا کرنے والی روحانی غذائوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ مصائب و آلام دم توڑ دیتے ہیں۔ سکون اور اطمینان قلب کی دولت نصیب ہو جاتی ہے۔

                ترجمہ: ’’اور جب یہ لوگ آپ کے پاس آتے ہیں جو ہماری آیتوں پر ایمان (یقین) رکھتے ہیں تو ان کو میرا سلام پہنچا دیجئے اور کہہ دیجئے کہ تمہارے رب نے تم پر اپنی مہربانی کرنا اپنے ذمہ مقرر کر لیا ہے۔‘‘

                ایمان، ایقان کے لئے ضروری ہے کہ بندہ خود ساختہ معبودوں کی نفی کر کے ایک ایسے معبود کی ربوبیت کا اقراربللسان اور تصدیق قلب کے ساتھ اقرار کرے۔ اسلامی تعلیمات کی بنیاد توحید و رسالت پر ہے۔ یعنی ایک معبود اور اس کے فرستادہ رسول کو زبان سے اور دل سے تسلیم کیا جائے۔ اس طرح تسلیم کیا جائے کہ اس میں کھوٹ نہ ہو، شک نہ ہو، منافقت نہ ہو۔ جب بندہ یقین، خلوص اور جذبہ ایثار کے ساتھ وحدانیت کا اقرار کر لیتا ہے تو اس کی مثال ایک ایسے تناور اور پھل دار درخت کی ہوتی ہے جس پر پھل بھی لگتے ہیں اور اس کے سائے میں  اللہ کی مخلوق سکھ چین کا سانس بھی لیتی ہے۔

                ترجمہ:’’کیا توغورنہیں کرتا کہ اللہ کریم نے کلمہ طیبہ کی مثال کس طرح بیان کی ہے۔ جو ایک عمدہ درخت کی طرح ہے۔ اس کی جڑ مضبوط ہے اور اس کی شاخیں آسمان میں پھیلی ہوئی ہیں۔ وہ اپنے رب کے حکم سے اپنا پھل دیتا ہے اور اللہ کریم لوگوں کے لئے مثالیں بیان کرتا ہے تا کہ وہ نصیحت حاصل کریں۔‘‘

                ہر باشعور آدمی اس حقیقت کو جانتا ہے کہ اس دنیا میں یا اس دنیا سے اس پار دوسری دنیا میں کسی بھی موجود چیز کے لئے ضروری ہے کہ اس کی کوئی بنیاد ہو۔ بنیاد کے بغیر نہ کوئی تعمیر ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی شئے مکمل ہوتی ہے۔ ہم گھر بناتے ہیں۔ گھر کے اندر کمرے بناتے ہیں۔ گھر کے اوپر چھت ڈالتے ہیں۔ بنیاد نہ ہو تو گھر، کمرے، دیواریں، دروازے، کھڑکیاں اور چھت کا تذکرہ نہیں ہو گا۔ کرسی کا نام سنتے ہی چار ٹانگوں کا یقین آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے۔ چار ٹانگیں نہیں ہوں گی تو کرسی نہیں بنے گی۔ انسانی معاشرہ کی بنیاد ایمان، یقین، مشاہداتی نظر پر ہے۔ اس کے بغیر معاشرہ کا لفظ بے معنی اور کھوکھلا ہے۔ معاشرہ کی بنیاد ایمان ہے۔ ایمان نہ ہو تو شرافت، اخلاق، روحانیت، انسانیت نہیں ہو گی۔ ایمان ایک ایسا بیج ہے جس کی نمو سے اعمال  صالحہ کا درخت اُگتا ہے اور اس شجر مبارکہ کی ہر شاخ، پتے، پھل اور پھول نیکی ہے۔ جس طرح درخت زمین میں سے آسمان کی طرف بلند ہوتا ہے اور پھیل کر آسمان اور زمین  کے درمیان سایہ بن جاتا ہے۔ اس طرح اعمال صالحہ کے درخت کا ہر پتہ یقین اور ایمان کا پیٹرن (Pattern) ہوتا ہے۔ جس طرح درخت کی شاخیں، پتے، پھل اور پھول درخت سے الگ کوئی حیثیت نہیں رکھتے اور درخت کا ہی حصہ ہوتے ہیں۔ اس طرح صراط مستقیم پر چلنے والے مرد و خواتین کو اعمال صالحہ کا درخت منظم و متحد رکھتا ہے۔ ان میں کسی قسم کا اختراق و اختلاف نہیں ہوتا۔ صراط مستقیم پر چلنے والے موحد اپنی اصل سے جڑے رہتے ہیں۔

                اور جو لوگ شجر مبارک (ایمان کا درخت) سے اپنا رشتہ نہیں جوڑتے وہ اعمال صالحہ کی بجائے اعمال خبیثہ کے درخت بن جاتے ہیں۔ اعمال خبیثہ کے درخت میں کانٹے ہوتے ہیں جو اس درخت کو اور اس درخت سے ہم رشتہ رہنے والوں کو چبھتے رہتے ہیں۔ اذیت ان کے اوپر مسلط ہو جاتی ہے۔ سکون ان کے لئے حرام ہو جاتا ہے۔ بے یقینی، شکوک و شبہات اور وسوسوں کی دلدل میں گر کر اندر ہی اندر دھنستے چلے جاتے ہیں۔ آخرت اور دنیا ان کے لئے سراسر گھاٹے اور خسارہ کی علامت بن جاتی ہے۔

Topics


نورنبوت نور الٰہی-V1

خواجہ شمس الدین عظیمی

زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور لازوال عیش ہے۔