Topics
آدمی آدمی کی دوا
ہے۔ آدمی آدمی کا دوست ہوتا ہے۔ ہر آدم زاد ایک دوسرے کا برادر اور دوست ہے۔
سیدالکونین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
کا ارشاد ہے:
’’دین سراسر خیر خواہی ہے……خیر خواہی
یہ ہے کہ بندہ جو اپنے لئے پسند کرے وہ اپنے دوست کے لئے بھی پسند کرے……یہ بات ہر آدمی
جانتا ہے کہ کوئی شخص اپنے لئے بُرا نہیں چاہتا‘‘۔
ایک اور جگہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ
و آلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
’’اچھے دوست کی مثال ایسی ہے جیسے مشک
بیچنے والے کی دکان کہ کچھ فائدہ نہ بھی ہو تو خوشبو تو ضرور آئے گی اور بُرا دوست
ایسا ہے جیسے بھٹی، جس سے آگ نہ لگے تب بھی دھوئیں سے کپڑے ضرور کالے ہوں گے‘‘۔
نوعی تقاضے پورے کرنے کے لئے ہر آدم
زاد کو اپنا بھائی سمجھئے۔ کوئی کام ایسا نہ کیجئے کہ آپ کے عمل سے نوع انسانی کی
فلاح متاثر ہو۔ ہمیشہ ان رُخوں پر سوچئے کہ نسل انسانی کی فلاح و بہبود کے وسائل میں
اضافہ ہو۔
ہم جب اللہ کی صفت خالقیت پر غور کرتے
ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا وصف مخلوق کی خدمت کرنا ہے۔
جب کوئی بندہ نوع انسانی کو دوست سمجھ کر اس کی خدمت کو اپنا مشن بنا لیتا ہے تو اس
پر اللہ کی رحمت کے دروازے کھل جاتے ہیں اور بالآخر کائنات اس کے آگے جھک جاتی ہے۔
تمام لوگوں میں خدا کے نزدیک زیادہ محبوب وہ آدمی ہے جو انسانوں کو زیادہ سے زیادہ
نفع پہنچائے اور نفع پہنچانے والا کوئی بندہ بلا تخصیص مرد و عورت نوع انسانی کا دوست
ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’مجھ پہ واجب ہے کہ میں ان لوگوں سے
محبت کروں جو لوگ میری خاطر آپس میں محبت اور دوستی کرتے ہیں اور میرا ذکر کرنے کے
لئے ایک جگہ جمع ہو کر بیٹھتے ہیں اور میری محبت کے سبب ایک دوسرے سے ملاقات کرتے ہیں
اور میری خوشنودی چاہنے کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ نیک سلوک کرتے ہیں‘‘۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم
کا ارشاد ہے:
’’خدا کے بندوں میں کچھ ایسے ہیں جو
نبی اور شہید تو نہیں ہیں لیکن قیامت کے روز خدا ان کو ایسے مرتبوں پر سرفراز فرمائے
گا کہ انبیاء اور شہداء بھی ان کے مرتبوں پر رشک کریں گے‘‘۔
صحابہ نے پوچھا وہ کون خوش نصیب ہوں
گے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم!……
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
’’یہ وہ لوگ ہیں جو آپس میں ایک دوسرے
سے محض خدا کے لئے محبت کرتے تھے۔ نہ یہ آپس میں رشتہ دار تھے اور نہ ان کے درمیان
کوئی لین دین تھا۔ خدا کی قسم! قیامت کے روز ان کے چہرے نُور سے جگمگا رہے ہوں گے۔
جب سب لوگ خوف سے کانپ رہے ہوں گے تو انہیں کوئی خوف نہ ہو گا اور جب سارے لوگ غم میں
مبتلا ہوں گے، اس وقت انہیں قطعاً کوئی غم نہ ہو گا‘‘۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ
ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور
مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی
اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان
کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو
اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں
تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ
باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب
سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور
لازوال عیش ہے۔