Topics

جولائی 1983؁ء۔دورخ

تعریف اس رب کائنات کے لئے ہے جو اپنی ربوبیت کی صفت عالی سے ہمیں کھانا کھلاتا ہے اور جو ہمارے معاشی، معاشرتی اور زندگی کے سارے کاموں میں ہماری مدد فرماتا ہے اور جس نے ہمیں رہنے، بسنے کے لئے آرام و استراحت کے وسائل کے ساتھ ٹھکانا بخشا ہے۔

                انسانی زندگی کے دو رخ ہیں۔ ایک بیداری، دوسرا رخ خواب۔ بیداری میں بھی اسے آرام و آسائش کے لئے وسائل کی ضرورت پیش آتی ہے اور سونے کی حالت میں بھی۔ سونے کی حالت بیداری کی مشقت و محنت کا ثمر ہے۔ آدمی جب تھک ہار کر اپنے اندر ضعف اور کمزوری محسوس کرتا ہے تو سونے کے بعد اس کی توانائیاں بحال ہو جاتی ہیں۔ یہ ایک قدرتی عمل ہے کہ آدمی روحانی طور پر بیداری کی حالت سے نکل کر اس دنیا میں پہنچ جاتا ہے جہاں وہ پیدائش سے پہلے مقیم تھا۔ سونے کی حالت میں وہ غیب کی دنیا میں سفر کرتا ہے اور غیب کی دنیا میں نورانی لہروں کو اپنے اندر جذب کرتا ہے اور سو اٹھنے کے بعد ایک نئی زندگی، نیا ولولہ، نیا جوش اپنے اندر موجود پاتا ہے۔

                ہمارے آقا، سرور کون و مکاں صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد گرامی ہے کہ بستر پر پہنچنے سے پہلے قرآن پاک کا کچھ حصہ ضرور پڑھو تا کہ غیب کی دنیا میں داخل ہونے سے پہلے، بیداری میں ہی انوار کا نزول شروع ہو جائے۔

                نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں:

                ’’جو شخص اپنے بستر پر آرام کرتے وقت کلام اللہ کی کوئی سورۃ تلاوت کرتا ہے تو خدائے تعالیٰ بیدار ہونے تک ہر تکلیف دہ چیز سے اس کی حفاظت پر ایک فرشتہ مامور کر دیتا ہے۔

                سونے کے لئے ایسی جگہ کا انتخاب کیجئے جہاں تازہ ہوا اور آکسیجن وافر مقدار میں پہنتی رہے۔ ایسے بند کمرے میں نہ سوئیں جہاں تازہ ہوا کا گذر نہ ہو۔ منہ لپیٹ کر سونے سے صحت پر بُرا اثر پڑتا ہے۔ سوتے وقت چہرہ کھلا رکھئے تا کہ تازہ ہوا ملتی رہے۔

                سوتے وقت یہ دعا پڑھئے:

                اللّٰھم باسمک اموت و احییٰ

                اے اللہ میں تیرے ہی نام سے موت کی آغوش میں جاتا ہوں ااور تیرے ہی نام سے زندہ اٹھوں گا۔


                روحانی دنیا میں رات غیب کے شہود کا ذریعہ ہے……اللہ رب العزت نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ و سلم سے ارشاد فرمایا ہے:

                ’’اے میرے محبوبﷺ! رات کو اٹھ کر قرآن پاک کی تلاوت کیجئے۔‘‘

                ’’پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو راتوں رات لے گئی مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک۔‘‘

                ’’اور وعدہ کیا موسیٰ سے تیس رات کا اور پورا کیا چالیس رات میں۔‘‘

                ’’اور نازل کیا ہم نے اس کو لیلتہ القدر میں لیلتہ القدر بہتر ہے ہزار مہینوں سے۔ اس رات میں اترتے ہیں فرشتے اور روح اپنے رب کے حکم سے، اور یہ رات امان اور سلامتی کی رات ہے۔‘‘

                خدا سے تعلق پیدا کرنے اور اس میں استحکام کے لئے آخری شب میں بیدار ہو کر خود کو خدا کی طرف متوجہ (مراقبہ) کرنا ضروری ہے۔ خدا نے اپنے دوستوں کی یہی امتیازی خوبی بیان فرمائی ہے کہ وہ راتوں کو اٹھ کر اپنے خالق کے سامنے جھکتے ہیں، سجدے کرتے ہیں اور اپنی خطائوں کی معافی مانگتے ہیں۔ شب بیدار لوگوں کو اطمینان قلب کی دولت نصیب ہوتی ہے۔ ان کے اوپر بشارت کے ذریعے آنے والی باتوں کا انکشاف ہوتا ہے۔ انہیں سچے خواب نظر آتے ہیں۔ نبی برحق صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے کہ اب نبوت میں سے بشارتوں کے علاوہ کچھ باقی نہیں رہا۔ لوگوں نے پوچھا۔ ’’بشارت سے کیا مراد ہے یا رسول اللہﷺ!‘‘

                آپﷺ نے فرمایا۔ ’’اچھا خواب۔‘‘

                حضرت محمد علی مونگیریؒ نے ایک بار حضرت مولانا فضل رحمٰن گنج مراد آبادی سے عرض کیا کہ کوئی خاص درود شریف بتایئے جس کی برکت سے سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم کی زیارت نصیب ہو جائے۔

                کچھ تامل کے بعد کہا۔ حضرت سید حسنؒ کو اس درود کی برکت سے حضورﷺ کا دیدار نصیب ہوا ہے:

                اللّٰھم صل علیٰ محمدٍ و عترتہٖ بعد د کل معلوم لک

                (خدایا رحمت نازل فرما محمدﷺ پر اور ان کی آل پر ان تمام چیزوں کی تعداد کے بقدر جو تیرے علم میں ہیں)

                ہادیٔ برحق رحمت اللعالمینﷺ کا ارشاد ہے:

                ’’جس شخص نے مجھے خواب میں دیکھا، اس نے واقعتاً مجھے ہی دیکھا اس لئے کہ شیطان میری صورت میں نہیں آ سکتا۔‘‘

                اللہ اور اس کے فرشتے نبی مکرمﷺ پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی اللہ کے محبوبﷺ پر صلوٰۃ و سلام بھیجو۔


 

Topics


نورنبوت نور الٰہی-V1

خواجہ شمس الدین عظیمی

زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور لازوال عیش ہے۔