Topics
قرآن ہمیں تفکر کی دعوت دیتا ہے…نوع
انسان کی تاریخ ہمیں ببانگ دہل بتا رہی ہے کہ زمین پر وہی قومیں حکمت و دانش مندی
سے سرفراز کی گئی ہیں جو اللہ کی پھیلائی ہوئی نشانیوں میں غور کرتی ہیں۔ دنیا کی
بادشاہت کا سہرا انہیں افراد کے سر پر سجتا ہے جو اللہ کی دی ہوئی عقل و فہم کو
استعمال کرتے ہیں اور عقل و حکمت اور علم و حلم سے خود کو آراستہ کرتے ہیں۔ کیا
ہم نے کبھی یہ سوچا کہ اگر زمین کے پیٹ میں جاری و ساری چشمیں سوکھ جائیں تو کون
ہے جو انہیں دوبارہ جاری کر سکتا ہے۔
فضائوں
میں رنگینی، زندگی کو تحفظ دینے والی روشنیاں، طرح طرح کی گیسیں، نیل گوں آسمان
کی بساط پر ستاروں کی انجمنیں، رات کی تاریکی میں روشن چاند، دن کے اجالے کو جلا
بخشنے والا سورج، ہوا، معطر معطر خراماں خراماں نسیم سحر درختوں کی نغمہ سرائی
چڑیوں کی چہکار، بلبل کی سدا، کوئل کی کوک کس نے تخلیق کی ہے؟…کیا ان سب کے اوپر
ہمارا کوئی دخل ہے، اگر یہ سب ایک مربوط نظام کے تحت قائم نہ رہیں…ہمارے پاس ایسا
کون سا ذریعہ ہے ج س سے ہم اس نظام کو قائم رکھ سکتے ہیں۔
اگر
ان باتوں کو رفعت و عظمت سے تعبیر کر کے اپنی بے بضاعتی کہا جائے تو…خود ہمارے جسم
میں ایسی بے شمار نشانیاں موجود ہیں جن سے ہم ہرگز ہرگز صرف نظر نہیں کر سکتے۔
ذرا
غور تو کیجئے:
جسم
کے اوپر بال کس طرح چپکے ہوئے ہیں۔ مرد کے چہرہ پر داڑھی ہوتی ہے۔ عورت کا چہرہ
ملائم اور بالوں سے صاف ہوتا ہے……آخر کیوں؟……کیا اس نظام میں ہمارے لئے کوئی
نشانی نہیں ہے۔
مرد
کے چہرے پر بال مرد کی خوبصورتی ہے اور
عورت کا نرم و نازک اور ملائم چہرہ عورت کی خوبصورتی ہے۔
یہی
بال جو مرد کے چہرے پر نکلتے ہیں عورت کے چہرے پر اس لئے نہیں نکلتے کہ ایک مخصوص
نظام کے تحت خون کی کثافت ختم ہو جاتی ہے یعنی بال دراصل خون کی کثافت ہے……ذرا غور
تو فرمائیں کہ قدرت نے اس کثافت کی قلب ماہیئت کر کے بالوں کی شکل میں کس طرح چہرے
سر اور جسم پر چپکا دیا ہے۔ آنکھ کے اندر کی مشینری کا کھوج لگایا جائے تو یہ پتہ
چلتا ہے کہ ہزاروں عضلات اللہ تعالیٰ کے کیمرے میں پرزے بن کر فٹ ہیں۔ دماغ کی
کارکردگی پر غور کیجئے تو اندر کی آنکھ دیکھتی ہے کہ بارہ کھرب خلیے دماغ میں
موجود ہیں اور ہر خلیہ آدمی کے اندر ایک حس ہے یہی وہ خلیے ہیں جو ہمارے اندر فکر
و خیال کے چراغ روشن کرتے ہیں۔ دل کی بے چیدہ مشینری ایک حکم ۔ ایک توازن۔ ایک
پروگرام کے تحت رواں دواں ہے۔ دل انسانی بالوں کو متحرک رکھنے کے لئے ایک ایسا
انجن ہے جس کے چلانے میں انسانی ارادہ کا کوئی دخل نہیں ہے۔
آپ
نے کبھی سوچا ہے؟
ماں
کے پیٹ کی اندھیری کوٹھری میں آپ کی پرورش کس طرح عمل میں آئی ہے اور اس ظلمت
کدہ سے سفر کرتے ہوئے ہم کس طرح مینارہ نور بن جاتے ہیں۔ یہ بھی تو ہو سکتا تھا کہ
حوا کے پیٹ سے آدمی کے بجائے کوئی سانپ، کوئی بندر پیدا ہو جاتا…بلاشبہ کائنات
ایک مربوط نظام کے تحت مسلسل اور متواتر حرکت میں ہے اور جس نظام پر یہ کائنات چل
رہی ہے وہ نظام تکوین ہے۔
ذرا
سوچو! اگر اللہ رات کا دامن پھیلا کر اسے قیامت کے وقت سے ملا دے تو کیا اللہ کے
بغیر کوئی اور طاقت ایسی ہے جو تمہیں اس طوالت سے بچا سکے اور اگر خدا دن کو قیامت
تک طویل کر دے تو کیا اللہ کے بغیر کوئی طاقت ایسی ہے جو تمہیں سکون کی نیند اور
رات کی آسودگیاں عطا فرمائے۔ جلی ہوئی خشک ویران بنجر زمین پر جب بارش برستی ہے
تو زمین کے اندر سے انگور کی بیل اور کھجور کے درخت اُگ آتے ہیں جو رنگ، خوشبو
اور ذائقہ میں الگ الگ ہوتے ہیں۔ یہ کیسا کمال ہے کہ ایک ہی پانی مختلف ڈائیوں میں
جا کر رنگ و روپ اور ذائقوں میں مختلف ہو جاتا ہے۔ کیا یہ بات غور و فکر کی طرف
ہمیں مائل نہیں کرتی کہ شہتوت پر آم کیوں نہیں اُگتے اور آم کے درخت پر آڑو
کیوں نہیں اُگتے اور آڑوئوں کے درخت سے بیر کیوں نہیں اترتے……
کہکشائوں
میں ہزاروں سورج ہونے کے باوجود رات کو زمین پر اندھیرا کیوں ہو جاتا ہے۔
سائنس
نے یہ تو جان لیا ہے کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے۔ سائنس دان یہ بھی کہتے ہیں کہ
سورج میں آگ کے الائو روشن ہیں مگر یہ کوئی نہیں بتاتا کہ کہکشائوں کی گردش پر
کنٹرول کس کا ہے۔ ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ آخر بڑے سے بڑا سائنس داں مر کیوں
جاتا ہے۔ دل کی پیوند کاری کرنے والے سائنٹسٹ کا دل فیل کیوں ہو جاتا ہے۔
ارض
و سماں کو بار بار دیکھو کیا تمہیں کوئی خلل نظر آتا ہے؟
حضرت
ایوب علیہ السلام اپنی کتاب (ایوب کی کتاب بابا ۳۸، ۳۹) میں فرماتے ہیں:
’’سیلابوں
کی گذرگاہیں اور بجلی کی گرج اور چمک کی راہیں کس نے مقرر کیں۔ کیا تو بادلوں کو
پکار سکتا ہے کہ وہ تجھ پر مینہ برسائیں۔ کیا تو بجلیوں کو اپنے حضور میں بلا سکتا
ہے؟…‘‘
دل
میں سمجھ اور فہم کس نے عطا کی ہیں اور ہرن کو آزادی کس نے دی؟
خواجہ شمس الدین عظیمی
زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ
ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور
مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی
اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان
کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو
اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں
تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ
باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب
سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور
لازوال عیش ہے۔