Topics
’’اور ہم نے رسول کو اس لئے بھیجا
کہ اللہ کے اذن کے مطابق اس کی اطاعت کی جائے۔ اور یہ لوگ جب اپنے اوپر ظلم کر بیٹھیں
اور اگر آپ کے پاس آئیں اور اللہ سے استغفار کریں اور رسول بھی ان کے لئے بخشش طلب
کریں تو وہ اللہ کو توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں گے‘‘۔ (سورہ النسائ۔ 64)
’’تمہارے پاس تم ہی میں سے ایک رسول
آئے ہیں۔ تمہارا ایذاء میں پڑنا ان پر شاق ہے اور وہ تمہاری بھلائی کے لئے انتہائی
حریص (عربی لغت میں حریص کے ایک معنی ایسے بادل کے ہیں جو پانی سے بے پناہ لبریز ہو
کہ اگر وہ برس جائے تو زمین میں شگاف پڑ جائے) ہیں اور مومنوں پر انتہائی مشفق و مہربان
ہیں‘‘۔ (سورہ التوبہ۔ 128)
’’اور ہم نے آپ کو تمام عالمین کے لئے
رحمت بنا کر بھیجا ہے‘‘۔ (سورہ الانبیائ۔
107)
’’اور ہم نے آپ کو تمام انسانوں کے
لئے خوشخبری سنانے والا اور چوکنا کرنے والا بنا کر بھیجا ہے‘‘۔
(سورہ سبا۔28)
مسلمانوں کی خوشی کے دو تہوار عیدالفطر
اور عیدالاضحٰی ہیں لیکن تفکر کرنے سے یہ اطلاع ذہن میں انسپائر ہوئی کہ اصل عید تو
عیدمیلادالنبیﷺ ہے کیونکہ باقی دونوں عیدیں تو حضور پاکﷺ کی اس دنیا میں ولادت باسعادت
کے بعد شروع ہوئیں۔ ارض و سماوات، مخلوقات اور امت مسلمہ کے لئے رسول اللہﷺ کی ولادت
اصل عید ہے۔ آپﷺ کی ولادت با سعادت کی خوشی میں عیدمیلادالنبیﷺ کا دن اللہ تعالیٰ
کے حضور سربسجود ہونے کا دن ہے۔
یہ مبارک دن ہر سال آتا ہے۔ چودہ سو
سال سے لوگ اس روز جمع ہوتے ہیں۔ نعت خوانی ہوتی ہے، مقالے پڑھے جاتے ہیں اور سیرت
طیبہﷺ کا تذکرہ ہوتا ہے۔ اس اہتمام کے بعد یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ کیا امت مسلمہ کی
زندگی اور اعمال رسول اللہﷺ کی تعلیمات کے مطابق ہیں؟
آپﷺ نے فرمایا: ’’سب مسلمان آپس میں
بھائی بھائی ہیں‘‘۔
ایک مرتبہ حضور علیہ الصلوٰۃ السلام
نے ارشاد فرمایا:
’’میں تم کو وہ بات بتاتا ہوں جس کا
درجہ نماز، روزہ اور صدقہ سے بھی زیادہ بلند ہے۔ وہ بات آپس میں اتفاق رکھنا ہے جب
کہ آپس میں انتشار رکھنا برباد کر دینے والا عمل ہے‘‘۔
ہر سال محافل میلاد بہت عقیدت و احترام
سے منعقد کی جاتی ہیں لیکن ایسا دکھائی دیتا ہے کہ لوگوں کا ذوق و شوق سے ان محفلوں
میں شریک ہونا صرف نشستن، گفتن و برخاستن ہو کر رہ گیا ہے۔ یہ امتِ مسلمہ کی بدنصیبی
نہیں تو اور کیا ہے کہ چودہ سو سال سے ہزار ہا تقاریر سننے، لاکھوں کلمات کا مطالعہ
کرنے اور کروڑ ہا بار رسول اللہﷺ پر درود شریف بھیجنے کے باوجود وہ تفرقہ کا شکار ہے۔
آج مسلمان کی شناخت ہی نہیں ہوتی۔
رسول اللہﷺ نے ہمیشہ یہ کوشش فرمائی
کہ سارے مسلمان بھائی بن کر رہیں۔ ایک دوسرے سے نہ لڑیں، حق تلفی نہ کریں اور محبت
کے ساتھ رہیں۔ بھائی کو بھائی سے لڑانا، مسلمان کو آپس میں دست و گریباں کر کے خون
خرابہ کرانا شیطان کا مشن ہے۔ اگر کوئی شیطانی خصلتوں یعنی تعصب، نفرت، حقارت اور تفرقہ
کو اپناتا ہے تو وہ ایسے راستے پر چل پڑتا ہے جو شیطان کا پسندیدہ ہے۔
اللہ تعالیٰ کا مشن توحید ہے اور اللہ
تعالیٰ وحدت کی دعوت دیتے ہیں۔ اگر ساری مسلمان امت آپس کے تفرقوں کو بھلا کر ایک
قوم بن جائے تو یہ اللہ تعالیٰ کے مشن کا حصہ بننے کے مترادف ہے۔ اللہ کے مشن کے لئے
کام کرنے والی قوم اللہ کی دوست ہے اور اللہ کی دوست قوم ذلیل و خوار نہیں ہوتی۔
اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اُس نے ہمیں
رسول اللہﷺ کی امت میں پیدا ہونے کی سرفرازی عطا فرمائی۔ ہمیں کلمہ اور نماز کی توفیق
دی اور رسول اللہﷺ سے عشق و محبت ہمارے دلوں میں پیدا کی۔ آیئے عزم کریں کہ رسول اللہﷺ
کی تعلیمات کو اپنانے کی کوشش کریں گے۔ تفرقہ بازی مسلمانوں کے لئے زہر قاتل ہے۔ سب
کلمہ گو مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں لہٰذا کوئی دوسرے مسلمان کو بُرا نہیں کہے
گا۔ خود کو جنتی اور دوسرے کو دوزخی گمان نہیں کرے گا۔ جب ہم اس جذبہ سے عمل کرنے کی
کوشش کریں گے تو یہ عمل اللہ تعالیٰ اور رسول اللہﷺ کی خوشنودی کا باعث ہو گا۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ
ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور
مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی
اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان
کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو
اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں
تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ
باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب
سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور
لازوال عیش ہے۔