Topics

اپریل1995؁ءدوطرزیں

اللہ تعالیٰ نے آدم کو اپنی نیابت عطا فرمائی تو فرشتوں نے عرض کیا کہ یہ زمین پر فساد پھیلائے گا۔ یہ بتانے کے لئے آدم کے اندر شر اور فساد کے ساتھ فلاح و خیر کا سمندر بھی موجزن ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آدمؑ سے کہا کہ ہماری تخلیقی صفات بیان کرو۔ جب آدمؑ نے تخلیقی صفات اور تخلیق میں کام کرنے والے فارمولے (اسمائ) بیان کیے تو فرشتے برملا پکار اٹھے:

                ’’پاک اور مقدس ہے آپ کی ذات، ہم کچھ نہیں جانتے مگر جس قدر علم آپ نے ہمیں بخش دیا ہے۔ بے شک و شبہ آپ ہی کی ذات علیم و حکیم ہے۔‘‘

                تفکر کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کائناتی پروگرام دو طرزوں (خیر و شر) پر بنایا ہے اس لئے کہ فرشتوں ن ے جو کچھ کہا اس کی تردید نہیں کی گئی ہے۔ بات کچھ یوں بنی کہ آدم کو جب تک اللہ تعالیٰ کی صفات کا علم منتقل نہیں ہوتا وہ سرتاپا شر اور فساد ہے اور تخلیق کا علم منتقل ہونے کے بعد سراپا خیر ہے۔

                آدمؑ کے وجود سے پہلے فرشتے موجود تھے۔ جن میں شر اور فساد نہیں تھا۔ پس ایک مخلوق پیدا کی گئی جس میں خیر اور شر دونوں کے عناصر پورے پورے موجود ہیں تا کہ یہ مخلوق شر کو نظر انداز کر دے خیر کا پرچار کرے خود بھی خیر (صراط مستقیم) پر قائم رہے اور اپنے بھائی بہنوں کو بھی دعوت دے، یہی وہ دعوت ہے جسے عام کرنے کے لئے چوبیس لاکھ پیغمبر بھیجے گئے اور یہی وہ دعوت ہے جو تبلیغ ہے۔

                دین کو پھیلانے کے لئے ہمیشہ دو طریقے رائم ہیں۔ ایک طریقہ یہ ہے کہ مخاطب کی ذہنی صلاحیت کو سامنے رکھ کر اس سے گفتگو کی جائے۔ اور حسن اخلاق سے اس کو اپنی طرف مائل کیا جائے۔ اس کی ضروریات کا خیال رکھا جائے۔ اس کی پریشانی کو اپنی پریشانی سمجھ کر تدارک کیا جائے۔

                دوسرا طریقہ یہ ہے کہ تحریر و تقریر سے اپنی بات دوسروں تک پہنچائی جائے۔

                تحریر قاری کے اوپر ایک تاثر چھوڑ دیتی ہے ایسا تاثر جو ذہن کے اندر فکر و فہم کی تخم ریزی کرتا ہے اور پھر یہی فکر و فہم ایک تناور درخت بن جاتا ہے۔

                اپنی تحریر و تقریر میں ہمیشہ اعتدال کا راستہ اختیار کیجئے۔ الفاظ کی نشست و برخاست ایسی ہو کہ سننے اور پڑھنے والے کے اوپر امید اور تعلق خاطر کی کیفیت طاری ہو جائے۔ خوف کو درمیان میں نہ لایئے کہ خوف پر مبالغہ آمیز زور سے بندہ خدا کی رحمت سے مایوس ہو جاتا ہے اور اسے اپنی اصلاح و نجات نہ صرف مشکل بلکہ محال نظر آنے لگتی ہے۔ تحریر میں ایسے الفاظ لکھئے جن میں رجائیت نہ ہو۔ خدا سے محبت کا ایسا تصور پیش کیجئے کہ خوف کی جگہ ادب و احترام ہو تا کہ وہ خدا کی رحمت اور بخشش کو اس کے پورے ادب اور احترام کے ساتھ قبول کرے۔

                نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد عالی مقام ہے:

                ’’بہترین عمل وہ ہے جو مسلسل کیا جاتا ہے چاہے وہ کتنا ہی تھوڑا ہو۔‘‘

                دین کی دعوت اور روحانی علوم کی اشاعت کے لئے تھوڑا سا کام کیجئے لیکن مسلسل کیجئے۔ لوگوں کو روحانی صلاحیتوں سے استفادہ کرنے کی دعوت دیجئے اور اس راہ میں پیش آنے والی مشکلات، تکالیف اور آزمائشوں کا خندہ پیشانی سے استقبال کیجئے۔

Topics


نورنبوت نور الٰہی-V1

خواجہ شمس الدین عظیمی

زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور لازوال عیش ہے۔