Topics

اگست1980؁ء۔پاکیزہ نفس

اس نے تمہیں منتخب فرما لیا ہے اور دین کے معاملہ میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی ہے۔ پیروی کرو اُس دن کی جو تمہارے باپ ابراہیم کا دین ہے۔ اُس نے پہلے ہی سے تمہیں مسلم کے نام سے نوازا تھا تا کہ رسول ہمارے لئے دین کی شہارت دیں اور تم دنیا کے سارے انسانوں کے سامنے دین حق کی شہادت دو۔ (قرآن کریم)

                ہم بحیثیت مسلم اللہ اور اس کے رسولﷺ کے جانشین ہیں اور ہمیں وہی کام انجام دینا ہے جو اللہ کے رسولﷺ نے انجام دیا ہے۔ جس طرح آخری نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے قول و عمل اور شب و روز کی زندگی سے خدا کے دین کو پھیلانے اور واضح کرنے کا حق ادا کیا ہے۔ اسی طرح حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پیروکار کی حیثیت سے ہمیں بھی دنیا کے سارے انسانوں کے سامنے خدا کے دین کو واضح کرنا ہے تا کہ پوری نوع انسانی اللہ کے حقیقی منشاء کو پورا کرنے کے قابل ہو جائے۔ اللہ نے جنات اور انسانوں کو اس لئے پیدا کیاہے کہ خود اللہ چاہتا ہے کہ بندے اپنی روح سے آشنا ہو کر اللہ کو پہچان لیں۔

                جو لوگ خود شناسی سے آگے اللہ کے راستے پر قدم اٹھا چکے ہیں۔ ان کے اوپر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ انسانوں کو اس راستہ پر چلنے کی دعوت دیں جو راستہ صراط مستقیم ہے۔ اور جس راستہ پر چلنے والے لوگوں پر انعام کیا جاتا ہے اور ان کے اوپر عرفان کے دروازے کھل جاتے ہیں۔

                اس دعوت کو عام کرنے کیلئے کچھ ضابطے ہیں، اصول اور قاعدے ہیں، ان کو ذہن نشین رکھئے۔

                اپنی اصلی حیثیت کو ہمیشہ نگاہ میں رکھئے۔ خود نمائی اور کبر سے بچئے، کوشش پیہم جاری رکھئے۔ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی بے لوث خدمت کیجئے۔ مقصد کے لئے زندہ رہئے اور اس ہی کے لئے جان دیجئے۔ اسی کام کو انجام دینے کیلئے خدا نے آپ کو ’’خیر امت‘‘ کے عظیم لقب سے سرفراز کیاہے۔


                پاکیزہ نفس اور روحانیت سے سرشار لوگوں سے محبت بندہ کو خود شناسی سے قریب کرتی ہے۔ یہ کون لوگ ہیں۔ یہ لوگ وہ ہیں جو آپس میں خدا کی خاطر محبت کرتے ہیں۔ بلاشبہ محبت آخرت کی نجات ہے۔

                غصہ، نفرت، تفرقہ، بغض و عناد اس مشن کا تشخص ہے جو بارگاہ ایزدی سے معتوب اور گم کردہ راہ ہے۔ یہ مشن کبر و نخوت، ضد اور ذاتی طور پر غرور کا پرچار کرتا ہے۔ اس کردار میں وہ تمام عوامل کارفرما ہیں جن سے بندہ اللہ سے دور ہو جاتا ہے۔ اس کے اوپر تاریکی گھٹا بن کر چھا جاتی ہے، ادبار اور آلام و مصائب اس طرح مسلط ہو جاتے ہیں کہ یہ خود اپنی نظروں میں ذلیل و خوار ہو جاتا ہے۔ بظاہر دنیا کی ہر آسودگی میسر ہوتی ہے لیکن دل میں ایک ایسا ناسور پیدا ہو جاتا ہے کہ اس کے تعفن سے روح کے اندر لطیف انوار اپنا رشتہ منقطع کر لیتے ہیں اور جب قطع و برید کی یہ حالت مزمن ہو جاتی ہے تو انوار کا ذخیرہ پس پردہ چلا جاتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق دلوں پر، کانوں پر مہر لگا دی جاتی ہے اور آنکھوں پر دبیز اور گہرے پردے ڈال دیئے جاتے ہیں۔ یہ محرومی اس کو نہ صرف یہ کہ دنیا میں امن وسکون سے دور کر دیتی ہے بلکہ ایسا بندہ ازلی سعادت اور عرفان حق سے بھی محروم ہو جاتا ہے۔

                رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے:

                ’’قیامت کے روز کچھ لوگ اپنی قبروں سے اٹھیں گے اور ان کے چہرے نور سے جگمگا رہے ہوں گے۔ وہ قوموں کے منبروں پر بٹھائے جائیں گے۔ لوگ ان کی شان پر رشک کریں گے۔ یہ لوگ نہ نبی ہوں گے، نہ شہید ہوں گے۔‘‘

                ایک بدّو نے سوال کیا۔ ’’یا رسول اللہﷺ! یہ کون لوگ ہیں ہمیں ان کی پہچان بتا دیجئے۔‘‘

                فرمایا۔’’ یہ وہ لوگ ہیں جو آپس میں خدا کی خاطر محبت کرتے ہیں۔‘‘

                نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو خدا کا دیدار ہوا۔ خدا نے اپنے پیارے نبیﷺ سے کہا، مانگئے! حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ دعا مانگی:

                ’’اے خدا! میں تجھ سے نیک کاموں کی توفیق چاہتا ہوں اور برے کاموں سے بچنے کی قوت چاہتا ہوں اور مسکینوں کی محبت چاہتا ہوں اورر یہ کہ تو میری مغفرت فرما دے اور مجھ پر رحم فرما۔ اور جب تو کسی قوم کو عذاب میں مبتلا کرنا چاہے تو مجھے اس حال میں اٹھا لے کہ میں اس سے محفوظ رہوں اور میں تجھ سے تیری محبت کا سوال کرتا ہوں اور اس شخص کی محبت کا سوال کرتا ہوں، جو تجھ سے محبت کرتا ہے اور اس عمل کی توفیق چاہتا ہوں جو تیرے قرب کا ذریعہ ہے۔‘‘

Topics


نورنبوت نور الٰہی-V1

خواجہ شمس الدین عظیمی

زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور لازوال عیش ہے۔