Topics
اللہ پاک کا ارشاد ہے……
ناپ
تول میں کمی کرنے والوں کے لیلئے ہلاکت ہے جو لوگوں سے لیتے وقت پورا وزن اور پورا
ناپ لیں اور جب دوسروں کو دینے کا وقت آئے تو تول یا ناپ کم کر دیں۔ کیا یہ لوگ نہیں
جانتے کہ یہ زندہ کر کے اٹھائے جائیں گے۔ ایک بڑے ہی سخت دن میں جس دن تمام انسان اللہ
رب العالمین کے حضور کھڑے ہوں گے۔
کاروبار
میں حسن اخلاق، کاروباری ترقی کے لئے ضمانت ہے۔ دکاندار کی حیثیت سے آپ کے اوپر بہت
سی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔
۱۔ یہ کہ خریداروں کو
اچھے سے اچھا مال فراہم کریں۔ جس مال پر آپ کو خود اعتماد نہ ہو وہ ہرگز کسی کو نہ
دیں۔
۲۔ آپ کو اپنے کردار
سے یہ ثابت کرنا ہو گا کہ خریدار آپ کے اوپر اعتماد کریں۔ آپ کو اپنا خیر خواہ سمجھیں،
آپ سے متاثر ہوں اور ان کو پورا پورا اعتماد ہو کہ آپ کی دکان یا کاروبار سے انہیں
کبھی دھوکہ نہیں دیا جائے گا۔
۳۔ اگر کوئی خریدار آپ سے مشورہ طلب کرے تو
بالکل صحیح صحیح اور مناسب مشورہ دیں چاہے اس میں آپ کا نقصان ہی کیوں نہ ہوتا ہو۔
۴۔ وقت کی پابندی کا پورا پورا خیال رکھیں
اور دکان صحیح وقت پر کھولیں اور صبر کے ساتھ دکان پر جم کر بیٹھیں۔ صبح بہت سویرے
بیدار ہو کر فرائض ادا کرنے کے بعد رزق کی تلاش میں نکل جانے سے خیر و برکت ہوتی ہے۔
۵۔ خود بھی محنت کیجئے اور ملازمین کو بھی
محنت کا عادی بنایئے اور ملازمین کے حقوق فیاضی اور ایثار کے ساتھ پورے کیجئے۔ ملازمین کاروباری فروغ میں
آپ کے ہاتھ پیر ہیں۔ ہمیشہ ان کے ساتھ پیار و محنت اور نرمی کا سلوک کریں۔
اللہ
کے حبیب کا فرمان ہے……جس شخص کی یہ خواہش ہو کہ اللہ اس کو روز قیامت کے غم اور گھٹن
سے بچائے رکھے تو اسے چاہئے کہ تنگدست قرضدار کو مہلت دے۔ یا قرض کا بوجھ اس کے اوپر
سے اتار دے۔
نبی
آخر زماں صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے……
قیامت
کے روز خدا تعالیٰ نہ اس شخص سے بات کرے گا نہ اس کی طرف رخ کر کے دیکھے گا اور نہ
اس کو پاک صاف کر کے جنت میں داخل کرے گا جو جھوٹی قسمیں کھا کھا کر اپنے کاروبار کو
فروغ دینے کی کوشش کرتا ہے۔
ایک
بار رحمت اللعالمین حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے لوگوں نے پوچھا۔
’’یا
رسول اللہﷺ! سب سے بہتر کمائی کون سی ہے؟‘‘
فرمایا۔
’’اپنے ہاتھ کی کمائی اور ہر وہ کاروبار جس میں جھوٹ اور خیانت نہ ہو۔‘‘
اس
حکم کی تعمیل میں ہمارے اوپر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ ہم دین پر مضبوطی کے ساتھ قائم
رہتے ہوئے کاروبار کریں۔ ہمیشہ سچائی اور راست گوئی سے کاروبار کو فروغ دیں۔ اپنے سامان
کو اچھا ثابت کرنے یا گامک کو متاثر کرنے کے لئے قسمیں نہ کھائیں۔
رسول
اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے:
’’سچا
اور امانت دار تاجر قیامت میں نبیوں، صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ ہو گا۔‘‘
خواجہ شمس الدین عظیمی
زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ
ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور
مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی
اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان
کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو
اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں
تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ
باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب
سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور
لازوال عیش ہے۔