Topics

ستمبر1997؁ء۔اللہ کا ایک کنبہ

حقوق العباد یہ ہے کہ انسان اس بات کا یقین رکھے کہ ساری نوع انسانی اللہ کا ایک کنبہ ہے اور میں خود اس کنبے کا ایک فرد ہوں۔ جس طرح کوئی انسان اپنی فلاح و بہبود اور اپنی آسائش کے لئے اصول وضع کرتا ہے اسی طرح ہر انسان پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اپنے بھائی کی آسائش اور آرام کا خیال رکھے۔ انبیاء اور اہل اللہ کی تاریخ پر اگر نظر ڈالی جائے تو یہ بات مظہر بن کر سامنے آتی ہے کہ تمام انبیائے کرام اور تمام اہل اللہ نے مخلوق کی خدمت کو اپنا نصب العین قرار دیا ہے۔ اللہ کی مخلوق کی خدمت کا سچا اور مخلصانہ جذبہ انسان کے اندر محبت، اخوت، مساوات اور مامتا کو جنم دیتا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کوہ طور پر چالیس راتیں عبادت میں اس لئے گزاریں کہ ان کے پیش نظر بنی اسرائیل کو بھرپور فیض سے نوازنا تھا۔ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام غار حرا سے باہر تشریف لائے تو بنی نوع انسان کو بے پناہ مادی اور روحانی فیض حاصل ہوا۔ اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے غار حرا کی تاریکی میں گیان دھیان کر کے جو نعمت حاصل کی اس نعمت سے آدم زاد کی پیاسی روحوں کو سیراب فرمایا۔ قرآن پاک روحانی اور انسانی قدروں کا تذکرہ کر کے بندوں کو حقوق العباد اور حقوق اللہ کی ادائیگی کے طریقے سکھاتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ اپنے حقوق کا تذکرہ فرماتے ہیں تو کہتے ہیں کہ وہ بادشاہ ہے وہ خداوند قدوس ہے، وہ سلامتی اور امن دینے والا ہے، وہ نگہبان ہے، وہ غالب اور دبدبے والا ہے اور کبریائی اسی کو زیب دیتی ہے۔ وہ خالق کائنات ہے، موجد کائنات ہے اور صورت گر موجودات ہے۔

                بندہ جب اللہ تعالیٰ کے حقوق پورے کرنے کی سعادت حاصل کرتا ہے تو اللہ بھی اس عمل کو قبول فرماتا ہے۔ سورہ انعام میں ارشاد ربانی ہے:

                ’’انسان کی آنکھیں اللہ کا ادراک نہیں کرتیں اور اللہ آنکھوں کا ادراک  کر لیتا ہے۔‘‘

                یعنی بے بضاعت اور بے نظر انسان جو اپنی آنکھوں سے اللہ کو نہیں دیکھ سکتا، اللہ خود آنکھوں کا ادراک بن کر اس کے سامنے آ جاتا ہے۔ سورہ بقرہ میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

                ’’میں تو تیرے قریب ہوں، تُو مایوس ہوتا ہے۔ میں تو ہر پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں۔‘‘

                اللہ تعالیٰ یہ بھی فرماتے ہیں:

                ’’تم جہاں بھی جاتے ہو میں تمہارے ساتھ ساتھ ہوتا ہوں۔‘‘

                قربت کے مزید اظہار کے لئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

                ’’ہم تو تمہاری شہ رگ سے بھی زیادہ تمہارے قریب ہیں۔‘‘

                ناقابل ادراک ہونے کے باوجود اللہ انسان کے ساتھ اپنی معیت اور قربت کا بار بار اعلان کرتا ہے۔ سورہ فجر میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

                ’’بلاشبہ تیرا پروردگار تجھے ہر دم جھانک رہا ہے۔‘‘

                حقوق العباد کے ضمن میں قرآن پاک کی تعلیم اور ہدایت ہر شعبے میں دلیل راہ ہے۔ قرآن پاک جب اصول معاشیات بیان کرتا ہے تو کہتا ہے:

                ’’جو لوگ سونا چاندی جمع کرتے ہیں اور اپنے بھائی بندوں پر ضرورت کے وقت اسے خرچ نہیں کرتے، ان کے لئے درد ناک عذاب کی بشارت ہے۔ جس روز دوزخ کی آگ میں اسے (دولت) کو گرم کیا جائے گا اور اس دولت سے ان کی پیشانیاں ان کے پہلو اور ان کی پیٹھ داغی جائے گی۔ یہی ہے وہ دولت جو تم اپنے لئے سمیٹ سمیٹ کر رکھتے تھے۔ پس دولت سمیٹنے کا مزہ چکھو۔‘‘ (سورہ توبہ)

                حقوق العباد کے سلسلے میں قرآن ہمیں تہذیب اور شائستگی بھی سکھاتا ہے۔ اس نے ہمیں ایک دوسرے سے ملنے جلنے اور تعلقات برقرار رکھنے کے اصول بھی بتائے ہیں۔ سورہ نساء میں ہے:

                ’’اور جب تمہیں سلام کیا جائے تو زیادہ تپاک اور گرم جوشی سے سلام کا جواب دو۔‘‘

                سورہ لقمان میں ہے:

                ’’زمین پر اکڑتے ہوئے مت چلو، بلاشبہ اس متکبرانہ چال سے تم نہ تو زمین میں شگاف ڈال سکتے ہو اور نہ پہاڑوں کے برابر لانبے ہو سکتے ہو۔‘‘

                گفتگو کا تذکرہ آتا ہے تو قرآن کہتا ہے:

                ’’بات کرتے ہوئے آواز کو دھیما رکھو، گدھوں کی آواز یقیناً نہایت بھدی اور بھونڈی ہوتی ہے۔‘‘

                سورہ نور میں ہے:

                ’’اے ایمان والو! اپنے گھروں کے علاوہ اوروں کے گھروں میں اطلاع دیئے بغیر اور سلام کئے بغیر نہ داخل ہوا کرو۔‘‘

                دو آدمی مجلس میں بیٹھ کر اگر سرگوشی کریں تو وہاں موجود دوسرے آدمیوں کے دل میں یہ خیال آ سکتا ہے کہ شاید ہماری نسبت کوئی بات کہی جا رہی ہے۔ اگر یہ نہیں تو اتنا گمان تو ضرور ہوتا ہے کہ ہمیں اس قابل نہیں سمجھا کہ ہمیں اپنی گفتگو میں شریک کیا جائے۔ اس خفت اور بدگمانی کو ختم کرنے کے لئے قرآن پاک نے مجلس میں بیٹھنے کے آداب بیان کئے ہیں اور سورہ مجادلہ میں فرمایا ہے:

                ’’سرگوشی پر شیطان اکساتا ہے تا کہ وہ مسلمانوں کو رنجیدہ کرے۔‘‘

Topics


نورنبوت نور الٰہی-V1

خواجہ شمس الدین عظیمی

زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور لازوال عیش ہے۔