Topics

دسمبر 2003؁-من حیث القوم

              اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ’’جو قومیں اپنی حالت نہیں بدلنا چاہتی، اللہ تعالیٰ اُن کی حالت میں تبدیلی پیدا نہیں کرتے‘‘۔  (القرآن)

              ہم نے من حیث القوم اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے قوانین سے نظر ہٹا لی ہے اور اپنے آپ کو عذاب و ثواب کے چکر میں محدود کر لیا ہے……اور اس قدر محدود کر لیا ہے کہ تخلیقی فارمولوں سے ہم بالکل بے بہرہ ہو گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ ہم نے زمین، آسمان اور اس کے اندر جو کچھ ہے سب کا سب تمہارے تابع کر دیا ہے۔ تمہارے لئے سورج کو مسخر کر دیا ہے، تمہارے لئے چاند کو مسخر کر دیا ہے، تمہارے لئے ستاروں کو مسخر کر دیا ہے اور ہم ہیں کہ ہم نے اس تسخیری عمل کو بھی آنکھ اُٹھا کر نہیں دیکھا۔

              جب کوئی بندہ جس کو اللہ تعالیٰ نے علم الیقین کی دولت سے نوازا ہے قرآن پاک میں تفکر کرتا ہے تو وہ اس بات کا مشاہدہ کر لیتا ہے کہ جس قوم نے اللہ کے بنائے ہوئے قانون کا مذاق اُڑایا اللہ نے اس قوم کو پست اور ذلیل کر دیا……

              ’’اللہ جسے چاہتا ہے زمین کا وارث بنا دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے غلامی میں مبتلا کر دیتا ہے‘‘۔  (آل عمران)

نورِ نبوت

              حضرت سید البشر رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد گرامی ہے کہ

              ’’کائنات میں گھڑی بھر کا تفکر سال بھر کی عبادت سے بہتر ہے‘‘۔

              اس حدیث مبارکہ سے ہمیں تخلیق کائنات پر غور و فکر کی اہمیت کا واضح اندازہ ہو رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین میں جو کچھ پیدا کیا ہے وہ محض دکھاوے کے لئے پیدا نہیں کیا……کائنات کا ایک ایک ذرہ کسی نہ کسی مصلحت اور حکمت خداوندی کا کرشمہ ہے۔ ہم دن اور رات ڈھول پیٹتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں، جنت ہماری میراث ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور عنایتوں کی ہمارے اوپر (ثواب کی شکل میں) بارش برستی رہتی ہے اور ثواب سے ہمارے خزانے بھرے ہوئے ہیں۔ جب کہ من حیث القوم ہم تہی دست ہیں!……کائناتی تفکر نہ ہونے سے ہم ایک ایسی قوم بن گئے ہیں جس کا کوئی مقام زمین پر ہے نہ آسمانوں میں اُس کی کوئی شنوائی ہے۔ وہ قوم جو قرآن نافذ کرتی تھی، معاشرتی اعتبار سے اتنی مفلوک الحال ہے کہ اس کی سوچ اور فکر پر بھی پردے پڑ گئے ہیں۔

Topics


نورنبوت نور الٰہی-V1

خواجہ شمس الدین عظیمی

زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور لازوال عیش ہے۔