Topics

مارچ 2005؁-ضروریات کی کفالت

ارشاد خداوندی ہے……

              ’’بے شک انسان مال و دولت کی محبت میں بڑا شدید ہے‘‘۔  (القرآن)

              انسان سمجھتا ہے کہ مال و دولت کے انبار اس کی ضروریات کی کفالت کرتے ہیں چنانچہ وہ گن گن کر مال و دولت جمع کرتا ہے اس یقین کی وجہ سے اس کی یہ حالت ہو جاتی ہے کہ مرتے دم تک مال و دولت کے معاملے میں دوسروں پر سبقت لے جانے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔ اس دوڑ میں وہ اپنے بھائیوں کے حقوق کے اتلاف کی بھی پرواہ نہیں کرتا۔ قدرت نے اُسے توانائیوں کے جو بیش بہا خزانے کسی اور مقصد کے لئے عطا کئے ہیںوہ انہیں ہوسِ زر میں صَرف کر دیتا ہے۔

              انسان کہتا ہے کہ جو کچھ میں کماتا ہوں وہ میرے دست و بازو کی قوت پر منحصر ہے، اس لئے میں جس طرح چاہوں اُسے خرچ کروں کوئی مجھے روکنے والا نہیں ہے……اور یہی وہ طرزِ فکر ہے جو آدمی کے اندر سرکشی اور بغاوت کی تخم ریزی کرتی ہے۔ جب یہ سرکشی تناور درخت بن جاتی ہے تو اس کا اللہ سے ذہنی رشتہ ٹوٹ جاتا ہے اور آدمی کا شمار ذریّتِ قارون میں ہونے لگتا ہے۔

 

نورِ نبوت

              حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے مال و دولت کو راہِ خدا میں خرچ کرنے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا:

              ’’آدم کے بیٹے کا یہ حال ہے کہ کہتا ہے کہ میرا مال! میرا مال! تیرا مال تو وہی ہے جو تُو نے صدقہ کیا اور آگے بھیج دیا۔ کھا لیا تو اس کو فنا کر چکا اور پہن لیا تو اس کو پرانا کر چکا‘‘۔

              رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ و سلم نے ارتکازِ دولت پر بار بار اظہارِ ناپسندیدگی فرمایا اور اسے مستحقین کی ضروریات پر خرچ کرنے کی تلقین فرمائی۔

              حضرت ابو سعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

              ’’جس کے پاس سواری کے لئے زائد اونٹ ہو وہ اُسے دے دے جس کے پاس سواری نہیں۔ جس کے پاس زائد زادِ راہ ہو وہ اُسے دے دے جس کے پاس زادِ راہ نہیں‘‘……

              حضرت ابوسعیدؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اسی طرح مختلف اموال کا ذکر فرماتے رہے حتیٰ کہ ہم نے محسوس کر لیا کہ ضرورت سے زائد مال رکھنے کا ہم میں سے کسی کو حق نہیں ہے۔

Topics


نورنبوت نور الٰہی-V1

خواجہ شمس الدین عظیمی

زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی اضطراب اور بے چینی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ظاہرا طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں، ان کا دل روتا رہتا ہے، ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے، وہ کسی کو اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ جب چیزیں سستی ہوتی ہیں تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو ان کا دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجئے جو درد ناک عذاب سے نجات دلانے والی ہے اور جس کا نفع فانی دولت نہیں بلکہ ہمیشہ کامرانی اور لازوال عیش ہے۔